Quran Pak Parhne Ki Mannat Ka Hukum

قرآن پاک پڑھنے کی منت کا حکم

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0344

تاریخ اجراء:20شوال المکرم1445ھ/29 اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں مختلف باتوں میں قرآن پڑھنے کی منت مانی جاتی ہے کہ فلاں کام ہوجائے، تو میں اتنے قرآن پڑھوں گا، تو کیا قرآن پڑھنے کی منت لازم ہوتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر کسی نے قرآن پڑھنے کی منت مانی تو اس کو پورا کرنا اس پر لازم نہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ اس منت کو پورا کرے ۔

   شرعی اعتبار سے جس  منّت کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے، اس کی کچھ شرائط ہیں : (1) جس بات    کی منّت مانی گئی ہو، اس کی جنس سے کوئی واجب ہو،(2) وہ عبادت خود بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو۔ (3)وہ عبادت خود فی الحال یا فی المآل فرض نہ ہو ، یعنی جب بھی اسے ادا کیا جائے ،تو وہ بطور فرض  یا واجب کے ہی ادا ہو ۔ 

   قرآن مجید کی تلاوت کی منت لازم نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن مجید کی جنس  سے کوئی واجب  لعینہٖ نہیں ، نماز میں جو قراءت فرض وواجب ہوتی ہے وہ نماز کے تابع ہوکر ہوتی ہے ، جبکہ منت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی جنس سے جو چیز واجب ہو وہ اصالۃً واجب ہو ،تبعاً واجب نہ ہو۔ 

   تنبیہ!بعض کتب میں اس منت کے واجب نہ ہونے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ تلاوت ِ قرآن کریم  عبادت تو ہے،   لیکن عبادت مقصودہ نہیں اور اس  کی جنس میں سے کوئی فرض یا واجب بھی نہیں ہے ، لہٰذا تلاوتِ قرآن کریم کی منت ذمہ پر لازم نہیں ہوگی ۔ لیکن اس پر علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اعتراض کرتے ہوئے  فرمایا :یہ مشکل ہے، کیونکہ قرآن پاک کی تلاوت عبادت مقصودہ بھی ہے اور اس کی جنس سے فرض بھی موجود ہے،جیسے نماز میں کی جانے والی قراءت فرض ہوتی ہے ۔علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ تلاوت قرآن مجید  عبادت مقصود ہ ہے،اور یہ بات بھی درست ہے کہ تلاوت کی جنس سے نماز کی قراءت واجب ہے ، لیکن اس میں تفصیل  یہ ہے  کہ منت میں اس کی جنس سے  واجب سے مراد اصالۃً واجب ہونا ہے،جبکہ نماز میں قراءت اصلاً نہیں، بلکہ تبعا ًواجب ہوتی ہے، لہٰذا اس وجہ سے قراءت قرآن کی منت واجب نہیں ، جیسا کہ اس کی تصریح آگے کفایہ شرح ہدایہ سے مذکور ہوگی ۔

   تلاوت قرآن کی منت لازم نہیں ہوتی،اس حوالے سے مجمع الانہرمیں ہے  :’’لم يلزم الناذر ما ليس من جنسه فرض كقراءة القرآن وصلاة الجنازة ترجمہ : جس کی جنس سے فرض نہ ہووہ منت ماننے والے پر لازم نہیں ہوتی، جیساکہ  قرآن  پاک کی تلاوت،نمازجنازہ۔( مجمع  الانھر شرح ملتقی الابحر ،جلد2،صفحہ 274،مطبوعہ بیروت)

   فتاوی قاضی خان  میں ہے:’’ولو قال: علي الطواف بالبيت والسعي بين الصفا والمروة أو علي أن أقرأ القرآن إن فعلت كذا لا يلزمه شيء‘‘ ترجمہ :  اور اگر  کسی نے کہا  مجھ پر بیت اللہ  کا طواف   اور صفا  و مروہ کی سعی لازم ہے  یا  کہا  اگر میں یہ کروں ،تو مجھ  پر  قرآن پاک پڑھنا لازم ہے، تو اسی طرح اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا ۔( فتاوی قاضی خاں ، جلد 1،  صفحہ 544 ، مطبوعہ بیروت )

   اسی طرح نورالایضاح  ومراقی الفلاح میں ہے:’’( لا يلزمه الوضوء بنذره)ولاقراءةالقرآن ‘‘ ترجمہ :  اور  وضو اور قرآن پاک  پڑھنے کی منت ماننے والے کو یہ لازم نہیں  ہے ۔(  نور الایضاح و مراقی الفلاح ، کتاب الصوم  ، صفحہ 516 ، مطبوعہ  بیروت )

   اس کی علت بیان کرتے ہوئے  جامع  الرموز میں  علامہ قہستانی  رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: ’’ لا یلزم النذر   بالوضوء  و قراء ۃ القرآن  لانھما للصلوۃ  لا لعینہ  کما  فی الکفایۃ  ‘‘ ترجمہ :  وضو اور قراءت قرآن کی منت   لازم نہیں  ہوتی، کیونکہ  یہ دونوں نماز کی وجہ سے لازم  ہوتے ہیں نہ کہ    بالذات خود  ،جیسا کہ کفایہ  میں ہے۔‘‘( جامع الرموز ،  جلد 1 ، صفحہ 385 ، مطبوعہ  کراچی )

   علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ " در مختار" میں فرماتے ہیں :”ولو نذر التسبیحات دبر الصلوٰۃ لم یلزمہ“یعنی:اور اگر کسی نے نماز کے بعد تسبیحات پڑھنے کی منت مانی ،تو اس کی منت اس کو لازم نہیں ہوگی ۔(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 05،صفحہ541،مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

   علامہ ابن عابدین  شامی رحمۃ اللہ علیہ "رد المحتار" میں در مختار کے قول ”لم یلزمہ“ کے تحت لکھتے ہیں:”و کذا لو نذر قراءۃ القرآن   وعللہ  القھستانی فی باب الاعتکاف  بأنھا للصلوٰۃ وفی الخانیۃ : ولو قال علی الطواف بالبیت ۔۔أو علی أن أقرأ القرآن ان فعلت کذا لا یلزمہ شیئ“ترجمہ:اور اسی طرح اگر کسی نےقرآن پڑھنے کی منت مانی  (تو اس کا پورا کرنا لازم نہیں )۔اور اس مسئلہ کی  امام قہستانی علیہ الرحمۃ نے جامع الرموز کے باب الاعتکاف میں یہ علت بیان فرمائی ہے کہ قراءت تو نماز کا وسیلہ ہے (عبادت مقصودہ نہیں، لہٰذا نذر  لازم نہیں)اور فتاوی خانیہ میں  ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا ”اگر میں نے اس طرح کیا تو مجھ پر خانہ کعبہ کا طواف لازم ہے یا مجھ پر قرآن پڑھنا لازم ہے“تو اس پر کچھ لازم نہیں ۔( رد المحتار علی الدر المختار، جلد 05،صفحہ 542،مطبوعہ بیروت)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس پر مزید لکھتے ہیں:’’ قلت : وھو مشکل ،فان القراءۃ عبادۃ مقصودۃ و من جنسھا واجب“ترجمہ:اور یہ مشکل ہے کیونکہ تلاوتِ قرآن عبادت مقصودہ ہے اور اس کی جنس میں سے واجب بھی ہے۔ ( رد المحتار علی الدر المختار،جلد 05،صفحہ 542،مطبوعہ بیروت)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  کا یہ فرمانا کہ  تلاوت  قرآن عبادت مقصودہ     ہے ،یہی درست ہے ، اور اسی طرح یہ فرمانا کہ اس کی جنس سے نماز کی قراءت واجب ہے، یہ بھی درست  ہے، لیکن یہ بات بیان کی جاچکی ہے  کہ نماز میں تلاوت قرآن  بالتبع فرض وواجب ہوتی ہے اور منت کے لیے اس کی جنس سے اصالۃ واجب ہونا ضروری ہے ۔ 

   کفایہ شرح ہدایہ  میں ہے:”الاصل فی صحۃ النذر ان لا یکون المنذور  واجبا  ولکنہ  من جنسہ للہ تعالیٰ واجب قصداً لا تبعا(الی ان قال)و قولنا:قصداً لا تبعا وھذا لانّ ما یکون واجبا تبعا یکون مباحا  لعینہ  فلم یکن النذر بہ الحاقا بالواجب  بل یکون نذرا بالمباح  والنذر بالمباح  لایصح،فلذا لا یصح  النذر  بعیادۃ  المریض  لانہ واجب  ولا بالوضوء  ولا بقراءۃ القرآن  لانھما وجبا للصلاۃ  ولیس  من جنسھما  واجب لعینہٖ ترجمہ :  منت کی صحت میں اصل یہ ہے کہ جس بات کی نذر مانی جارہی ہے، وہ خود واجب نہ ہو ، ہاں لیکن اس کی جنس سے اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا واجب ہو جو  خود مقصود ہو   نہ کہ بالتبع ، اور ہمارا یہ کہنا کہ مقصودا ً واجب ہو تبعا ًواجب نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بالتبع واجب ہوگا اصل کے اعتبار سے مباح ہوگا ، تو اس کی نذر واجب کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگی ، بلکہ مباح سے ملحق ہونے کی وجہ سے ہوگی اور مباح کی منت صحیح نہیں ہوتی ، اسی وجہ سے مریض کی عیادت کی منت درست نہیں کیونکہ  یہ خود واجب ہے،اور نہ ہی وضو اور نہ ہی قراءت قرآن کی منت واجب ہوتی ہے ،کیونکہ یہ نماز کے لیے واجب ہوئے ہیں، نہ  کہ ان کی جنس سے بعینہٖ کوئی واجب موجود ہے ۔(الکفایۃ فی شرح الھدایۃ ، جلد2، صفحہ 161، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   صحیح یہ ہے کہ تلاوت قرآن عبادت مقصودہ ہے۔چنانچہ نہر الفائق میں ہے:’’لا شک فی صدق قولنا القراءۃ عبادۃ مقصودۃ‘‘ترجمہ:ہماری اس بات کی سچائی میں کوئی شک نہیں کہ تلاوت قرآن عبادت مقصودہ ہے۔(النھر الفائق،جلد 1،صفحہ 106،مطبوعہ کراچی)

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں عبادۃ مقصودہ جو بلاطہارت درست ہے، اس کی مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’او مقصودۃ تحل بدون الطھارۃ کقراءۃ القرآن للمحدث‘‘ترجمہ:یا وہ ایسی عبادت مقصودہ ہو جو بغیر طہارت درست ہو ،جیسے محدث کے لیے تلاوت قرآن کرنا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،جلد 1 ،صفحہ 606،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مس مصحف یا دخول مسجد فی نفسہٖ کوئی عبادت مقصودہ نہیں، بلکہ عبادت مقصودہ تلاوت و نماز ہیں اور یہ ان کے وسیلے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد 3،صفحہ556،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم