Quran Ki Qasam Todne Ka Kaffara Kya Hai ?

قرآن کی قسم کھا کر توڑنے کا شرعی کفارہ کیا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12207

تاریخ اجراء: 29شوال المکرم1443ھ/31مئی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے قرآن کی قسم کھائی کہ میں اپنے فلاں دوست سے بات نہیں کروں گا۔ اب زید اس سے بات کرنے لگ گیا ہے، اس صورت میں زید کو کیا کرنا ہوگا؟؟رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مستقبل میں  کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانے کو شریعت کی اصطلاح میں یمینِ منعقدہ کہتے ہیں اور یمینِ منعقدہ کے توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے، نیز قرآن کی قسم بھی شرعاً قسم ہے۔ اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں دوست سے بات کرنے پر زید  کی وہ قسم ٹوٹ چکی ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں زید  پر اس قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔

     قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو صبح و شام دو وقت کا کھانا کھلائیں اور اس میں جن کو صبح کھانا کھلایا ان ہی کو شام میں بھی کھلائیں تب ہی کفارہ ادا ہوگایا دس مسکینوں کو متوسط درجے کے کپڑے دیں۔ البتہ کفارے کی ادائیگی میں اس  بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے ، تو کھانے کے بدلے میں ہر شرعی فقیر  کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار برابر رقم دیں۔ واضح رہے کہ ساری رقم ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو نہیں دے سکتے بلکہ دس فقیروں کو الگ الگ دینی ہوگی یا ایک شرعی فقیر کو الگ الگ دس دن تک دینی ہوگی۔ نیز اگر کوئی شخص دس صدقہ فطر کی مقدار رقم دینے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ وہ لگاتار تین دن کے روزے رکھے۔

     یمین منعقدہ توڑنے پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”ومنعقدۃ وھو أن یحلف علی أمر فی المستقبل أن یفعلہ أو لا یفعلہ وحکمہ لزوم الکفارۃ عند الحنث“یعنی قسم کی تیسری قسم یمینِ منعقدہ ہے،اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مستقبل کے معاملے پر قسم کھائے کہ اس کو کرے گا،یا نہیں کرے گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ قسم توڑنے پر کفارہ لازم ہوجائے گا۔ (فتاوٰی عالمگیری،ج02،ص52،مطبوعہ پشاور)

     قسم کے کفارے کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمْ وَلٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ؕوَاحْفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمْ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡن“ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر  ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا،اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یاانہیں کپڑے دینایاایک بردہ آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے،یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا جب قسم کھاؤ اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو اسی طرح اللّٰہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو۔(القرآن الکریم،پارہ07،سورۃ المائدہ، آیت:89)

     الجوہرۃ النیرہ میں ہے :”(کفارۃ الیمین عتق رقبۃ ۔۔۔ و ان شاء کسا عشرۃ مساکین ۔۔۔ و ان شاء اطعم عشرۃ مساکین) و تجزئ فی الاِطعام التملیک و التمکین ، فالتملیک ان یعطی کل مسکین نصف صاع من بر او دقیقہ او سویقہ ، او صاعا من شعیر او دقیقہ او سویقہ ، او صاعا من تمر “یعنی  قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اور کھلانے میں مالک بنانا اور قدرت دینا دونوں صورتیں کافی ہیں ۔ مالک بنانا یہ ہے کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گندم یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع جَو یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع کھجور دے۔ (الجوھرۃ النیرۃ ، کتاب الاَیمان ، ج2 0، ص252-251 ، مطبوعہ کراچی، ملخصاً )

     صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہالرحمہ قسم کے کفارے کے متعلق فرماتے  ہیں:”قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس 10مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ ۔۔۔اور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انھیں کو شام کے وقت بھی کھلائے دوسرے دس 10 مساکین کو کھلانے سے ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دسوں کو ایک ہی دن کھلادے یا ہرروزایک ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلائے۔۔۔ اور کھلانے میں اباحت و تملیک دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو یا ان کی قیمت کا مالک کردے یا دس 10 روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روز بقدر صدقہ فطر دیدیا کرے۔ ۔۔۔اگر غلام آزاد کرنے یا دس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو تو پےدرپے تین روزے رکھے۔(بہار شریعت،ج02، ص305،308، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم