Nawafil Ki Tadad Muqarrar Kiye Bagair Mannat Mani To Kitne Nawafil Parhne Honge ?

نوافل کی تعداد معین کیے بغیر  مت مانی، تو کتنےنفل لازم ہوں گے  ؟

مجیب: مفتی    ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-11886

تاریخ اجراء: 20ربیع الثانی1443 ھ/26نومبر 2021   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ زید   نے یوں منت مانی کہمیرے بیٹا ہوا تو میں گیارہ فقیروں کو ایک وقت کا کھانا کھلاؤں گا، اور شکرانے کے نوافل پڑھوں گا۔ نوافل کی منت زید نے مطلق مانی تھی اس میں رکعات کو معین نہیں کیا تھا۔

    اب اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے زید کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے، آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں اس منت کا کیا شرعی حکم ہوگا ؟  رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ یاد رہے کہ اگرکوئی شخص ایسی کسی چیز کی منت مانے کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو اور وہ اس منت کو کسی ایسے کام پر معلق کرے جس کام کا ہوناوہ چاہتا ہو تو اب شرط پائےجانے کی صورت میں اس منت کا پورا کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے، اب جبکہ صورت مسئولہ میں وہ  شرط پائی  گئی  یعنی زید کے  بیٹاپیداہوگیا ،تو صورتِ مسئولہ میں زید  پرلازم  ہے کہ وہ اپنی اس منت کو پورا کرےیعنی  گیارہ فقیروں کو ایک وقت کا کھلانا کھلائے اور دو رکعات نفل ادا کرے، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کسی شخص نے نماز کی منت مانتے وقت رکعات کو معین نہ  کیا ہو تو اس صورت میں دو رکعت نماز پڑھنا اس پر لازم ہے۔

   شرط پائے جانے کی صورت میں منت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”فان علقہ بشرط  يريدہ كان قدم غائبي  او  شفى مريضي یوفی وجوباً ان وجد الشرط، ملخصا “یعنی اگر کوئی شخص نذر کو ایسی شرط پر معلق کرتا ہے جس کا ہونا اسے  پسند ہو، جیساکہ وہ کہے اگراللہ تعالی میرے غائب کو واپس لوٹا دے یا اللہ تعالیٰ میرے مریض کو شفا دے دے، تو اب شرط  پائے جانے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ہی واجب ہوگا۔ (الدر المختار،کتاب الایمان، ج 05، ص 543-542، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اوس کے ہونے کی خواہش ہے ،مثلاً: اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں ،تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ،ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا تو اوتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض میں کفارہ دیدے۔“ (بھارشریعت ،ج02،ص314، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

   منت میں جتنے فقیروں کو جتنے وقت کا کھانا کھلانے کی نیت کی  ہو، تو اسی نیت کے مطابق عمل کرنا ہوگا، جیسا کہ مبسوط اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔ والنظم للاخر:’’ إذا جعل الرجل لله على نفسه طعام مساكين فهو على ما نوى من عدد المساكين وكيل الطعام وإن لم يكن له نية فعليه إطعام عشرة مساكين لكل نصف صاع من حنطة كذا في المبسوط“یعنی اگر کسی شخص نے اللہ عزوجل کے لیے مساکین  کے کھانے کو اپنے اوپر لازم کیا ،تو جتنے مساکین کو جتنی مقدار کھانا کھلانے کی اس نے  نیت کی ہو،  تو اسی نیت کے مطابق منت کو پورا کرنے کا حکم ہوگا اور اگر اس کی کوئی نیت نہ ہو،تو اس صورت میں اس پر دس مساکین میں سے ہر ایک مسکین کو نصف صاع گندم کی مقدار کے  برابر کھانا کھلانا ضروری ہوگا، جیسا کہ مبسوط میں مذکور ہے۔     (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الایمان، ج 01، ص 66، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے : ”اگر فقیروں کے کھلانے کی منّت مانی ،تو جتنے فقیر کھلانے کی نیت تھی اتنوں کو کھلائے ۔۔۔اور دونوں وقت کھلانے کی نیت تھی ،تو دونوں وقت کھلائے اور ایک وقت کا ارادہ ہے، تو ایک وقت۔ ملتقطاً          (بھار شریعت ، ج02، ص315، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :”زید نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے گا، تو میں اپنے احباب  کو کھانا کھلاؤں گا، تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہو گا یا نہیں؟ آپ  علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں، تو وجوب ہو جائے گا۔ (فتاوی رضویہ ، ج13،ص584، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   منت میں نماز کی رکعات  کو معین نہ کیا ہو،  تو دو رکعت ادا کرنا لازم ہے۔ جیسا کہ بحر الرائق اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔والنظم للاخر:إذا قال : لله علي أن أصلي لزمه ركعتان وكذا إن قال : أصلي صلاة “یعنی اگر کسی شخص نے کہا کہ اللہ عزوجل کے لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں نماز ادا کروں، تو اس صورت میں اس پر دو رکعت لازم ہوں گی، یونہی اگر وہ اس طرح  کہے کہ میں نماز ادا کروں گا۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الایمان، ج 01، ص 65، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے : ”نماز پڑھنے کی منّت مانی اور رکعتوں کو معین نہ کیا، تو دورکعت پڑھنی ضروری ہے۔(بھار شریعت ، ج02، ص315، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم