Nabaligh Ki Qasam Ka Hukum

نابالغ کی قسم کاحکم

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-972

تاریخ اجراء:       13محرم الحرام1444 ھ/13اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر نابالغ نے اللہ کی قسم کھائی کہ بالغ ہو کر فلاں کام کروں گا،اب وہ بالغ ہوگیا لیکن وہ کام نہیں کرتا ،تو اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں جب اس نے حالت نابالغی میں قسم کھائی تو وہ قسم منعقد ہی نہ ہوئی اور اب اس کام کے نہ کرنے  پر کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔کیونکہ قسم منعقد ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں توکفارہ نہیں اوران میں سے ایک شرط بالغ ہونا بھی ہے۔

   بدائع الصنائع میں ہے:”منھا ان یکون عاقلاً بالغاً فلا یصح یمین الصبی و المجنون وان کان عاقلاً لانھا تصرّف ایجاب وھما لیس من اھل الایجاب“ترجمہ:قسم درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط قسم کھانے والے کا عاقل بالغ ہونا ہے ۔ چنانچہ (نابالغ ) بچہ اگرچہ عقلمند ہو اور پاگل کا قسم کھانا درست نہیں کیونکہ قسم کھانا کوئی چیز اپنے اوپر لازم کرنے کا اقدام ہے اور پاگل اور بچہ اس تصرّف کے اہل نہیں۔(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،ج4،ص32،دارالحدیث ، قاھرہ، مصر )

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”فلا یصح یمین المجنون والصبی وان کان عاقلاً“ ترجمہ : پاگل کی قسم صحیح نہیں  اور بچے کی بھی اگرچہ عقلمند ہو(یعنی کفارہ نہیں)۔(الفتاوی الھندیۃ،ج2،ص51،مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم