مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12997
تاریخ اجراء: 29صفر المظفر1445 ھ/16ستمبر 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دِین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید
نے نابالغی کی حالت میں نوافل پڑھنے کی منت مانی تھی،
لیکن کتنے نوافل پڑھنے کی منت مانی تھی ؟ یہ زید
کو یاد نہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کتنے
نوافل پڑھے کہ وہ اس منت سے برئی الذمہ ہوجائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
منت لازم ہونے کی شرائط میں سے ایک بنیادی
شرط یہ بھی ہے کہ منت ماننے والا عاقل و بالغ ہو، نابالغ منت ماننے کا
اہل ہی نہیں کہ وہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہے، لہذا
پوچھی گئی صورت میں زیدنے نابالغی کی حالت میں
جو منت مانی تھی اس کی
وجہ سے زید پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔
منت درست واقع ہونے کے لیے عاقل و بالغ ہونا ضروری
ہے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:” أما الذي يتعلق بالناذر فشرائط الأهلية: (منها) العقل۔ (ومنها) البلوغ، فلا يصح نذر
المجنون والصبي الذي لا يعقل، لأن حكم النذر وجوب المنذور به، وهما ليسا من أهل
الوجوب، وكذا الصبي العاقل؛ لأنه ليس من أهل وجوب الشرائع، ألا ترى أنه
لا يجب عليهما شيء من الشرائع بإيجاب الشرع ابتداء؟ فكذا بالنذر، إذ الوجوب عند وجود الصيغة من الأهل في المحل بإيجاب الله تعالی
لا بإيجاب العبد، إذ ليس للعبد ولاية الإيجاب، وإنما الصيغة علم على إيجاب
الله تعالى۔“یعنی
منت ماننے والے سے متعلق اہلیت کی
شرائط میں سے عقل و بلوغ ہے لہذا پاگل اور ناسمجھ بچے کی منت درست نہیں
کیونکہ نذر کا حکم منت مانی گئی چیز کا واجب ہونا ہے اور یہ
دونوں اہل وجوب میں سے نہیں ۔ یونہی سمجھ دار بچہ
ہو (تو بھی کچھ واجب نہیں) کیونکہ اس پر بھی شرعی
احکام لازم نہیں۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ پاگل اور
بچے پر ایسی کوئی شے لازم نہیں جو ابتداءً شریعت نے واجب قرار دی
ہو۔ یہی حکم منت کا بھی
ہے، کیونکہ منت کا وجوب اس وقت پایا جاتا ہے جب اہل کی جانب سے محل میں منت
کا صیغہ پایا جائے تو یہ
ایجاب اللہ عزوجل کی طرف سے ہے نہ کہ بندے کی طرف سے، کیونکہ بندہ واجب کرنے کا اختیار
نہیں رکھتا جبکہ مخصوص الفاظ اللہ
تعالی کی طرف سے واجب کیے جانے کی نشانی ہیں ۔(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب
النذر، ج05،ص81،دار
الكتب العلميۃ)
فتاوی عالمگیری میں ہے:”( وأما شرائطها في اليمين بالله تعالى ) ففي الحلف أن يكون عاقلا بالغاً، فلا یصح یمین المجنون والصبی
وان کان عاقلاً“یعنی
اللہ عزوجل کے نام کی قسم کھانے کی شرائط میں سے یہ بھی
ہے کہ قسم کھانے والا عاقل و بالغ ہو، لہذا
پاگل کی قسم صحیح نہیں یونہی بچے کی
بھی قسم صحیح نہیں اگرچہ عاقل ہو۔ “ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الیمین،
ج02،ص51،مطبوعہ پشاور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا قرآن پاک کا سچا حلف اٹھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
واٹس ایپ میسج کے ذریعے قسم کھائی کیا قسم منعقد ہوگئی؟
کیا یہ جملہ منت ہے کہ میں اپنی کمائی مسجد میں دوں گا؟
قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟
عورت نے مسجد میں نوافل پرھنے کی منت مانی،کیا گھر میں پڑھ سکتی ہے؟
کیا منّت کے نوافل ایک ہی وقت میں پڑھنا ضروری ہیں ؟
منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
نابالغ بچہ قسم توڑ دے ، تو کیا اس پر کفارہ ہوگا ؟