Musalsal 12 Din Roze Rakhne Ki Mannat Mangi Aur Darmiyan Mein Ek Roza Chordiya

مسلسل 12 دن روزے رکھنے کی منت مانی اور درمیان میں روزہ چھوڑ دیا تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: -2528Aqs

تاریخ اجراء: 29 ربیع الاول 1445ھ /16 اکتوبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت نے اپنے کام کے لیے ربیع الاول میں 12 روزے لگاتار رکھنے کی منت مانی ، لیکن چھ روزے لگاتار رکھنے کے بعد گرمی اور کمزوری کی وجہ سے تسلسل توڑ دیا اور روزہ نہیں رکھا، تو اب اس کا کیا حل ہے ؟ کیا دوبارہ 12 روزے رکھنے ہوں گے ؟ یا پہلے کے رکھے ہوئے چھ روزے کافی ہیں اور اب صرف چھ روزوں کی قضا کرنی ہو گی ؟ نیز یہ روزے ابھی بھی لگاتار رکھنے ضروری ہیں یا ناغے کے ساتھ بھی رکھے جا سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں منت کی قضا کی نیت سے دوبارہ مکمل 12 روزے لگاتار یعنی ناغہ کیے بغیر رکھنے لازم ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عورت نے اپنے کام کے لیے ربیع الاول میں 12 روزے لگاتار رکھنے کی منت مانی تھی اور جس کام کے لیے کوئی منت مانی جائے اور منت ماننے والا چاہتا ہو کہ وہ کام ہو بھی جائے ، تو کام ہو جانے کی صورت میں منت میں شرط کی گئی بات پر عمل کرنا اور منت کو بعینہٖ اُسی طرح پورا کرنا واجب ہوتا ہے کہ جس طرح منت مانتے ہوئے شرط ذکر کی ہو ، لیکن اس عورت نے شرط کے مطابق 12 روزے لگاتار نہیں رکھے، بلکہ چھ روزے لگاتار رکھنے کے بعد گرمی اور کمزوری کی وجہ سے روزوں میں ناغہ کر لیا ، لہٰذا شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے منت پوری نہیں ہوئی اور چونکہ اب منت کا مقرر کیا ہوا وقت بھی گزر گیا ہے ، لہٰذا اس کی قضا لازم ہے ، کیونکہ وقت مقرر کر کے مانی ہوئی منت پوری نہ کرنے کی صورت میں قضا واجب ہو جاتی ہے اور قضا بھی اُسی طرح کرنا لازم ہوتی ہے ، جس طرح منت میں شرط کی ہو ۔

   منت اللہ پاک سے وعدہ ہے اور اسے بغیر شرعی مجبوری کے پورا نہ کرنا گناہ ہے ، لہٰذا اس منت ماننے والی عورت پر لازم ہے کہ قضا کے ساتھ ساتھ اسے وقت پر پورا نہ کرنے کے گناہ سے توبہ بھی کرے۔

   قرآن مجید میں منت پوری کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تبارَک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ﴿وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْترجمۂ کنز الایمان : ”اور اپنی منتیں پوری کریں ۔“(پارہ17 ، سورۃالحج ، آیت29)

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مَن نذر ان یطیعَ اللہَ فلیطِعْہ “ ترجمہ : جو یہ منّت مانے کہ اللہ پاک کی اطاعت کرے گا ، تو اُس کی اطاعت کرے(یعنی منّت پوری کرے)۔(صحیح البخاری ، ج2 ، ص522 ، حدیث6696 ، مطبوعہ لاھور)

   منت اللہ پاک سے وعدہ ہے اور اسے پورا نہ کرنا گناہ ہے ۔ چنانچہ مبسوطِ سرَخسی میں ہے : ”الناذر معاھد للّٰہ تعالٰی بنذرہٖ فعلیہ الوفاء بذٰلک و قد ذَمّ اللہ تعالٰی قوما ترکوا الوفاء بالنذر “ ترجمہ : منت ماننے والا اپنی منت کے ذریعے اللہ پاک سے وعدہ کرتا ہے ، لہٰذا اس پر اسے (یعنی منت کو) پورا کرنا واجب ہے اور اللہ پاک نے منت پوری نہ کرنے والی قوم کی مذمت فرمائی ہے ۔(المبسوط للسرَخسی ، ج3 ، ص143 ،  مطبوعہ کوئٹہ)

   منت کو ایسی شرط پر معلق کیا جس کا ہونا چاہتا ہے ، تو وہ شرط پائی جانے کی صورت میں منت میں مانا ہوا کام ہی کرنا واجب ہوتا ہے ۔ چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے : ”ان سمی شیئا  ففی المطلق یجب الوفاء بہ  وکذا فی المعلق  ان کان التعلیق بشرط یراد کونہ  “ ترجمہ : اگر (منت میں) کسی کام کا  ذکر کیا  ، تو   مطلق منت میں  اسی   کام کو پورا کرنا واجب ہے اور اسی طرح  معلق منت میں بھی  (اسی  کام کو پورا کرنا واجب ہے) ، اگر  ایسی شرط پر معلق کیا ، جس کا ہونا چاہتا ہے ۔(تبیین الحقائق ، ج3 ، ص427 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اوس کے ہونے کی خواہش ہے، مثلاً: اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں ، تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ، ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا ، تو اوتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض میں کفارہ دیدے۔‘‘(بھار شریعت، حصہ9، ج2،ص314،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   لگاتار روزوں کی منت مان کر الگ الگ روزے رکھ لیے ، تو منت پوری نہیں ہو گی ۔ چنانچہ بحرالرائق میں ہے : ”لو اوجب علی نفسہ صوما متتابعا فصامہ متفرقا لم یجز “ ترجمہ : منت ماننے والے نے اگر اپنے اوپر لگاتار روزے واجب کیے اور الگ الگ کر کے رکھے ، تو وہ روزے (منت کے لیے) کافی نہیں ہوں گے (یعنی دوبارہ لگاتار روزے رکھنے لازم ہوں گے)۔(البحر الرائق ، کتاب الصوم ، فصل فی النذر ، ج2 ، ص519 ، مطبوعہ کوئٹہ(

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”پے در پے (یعنی لگاتار) روزے کی منت مانی ، تو ناغہ کرنا ، جائز نہیں ۔(بھارِ شریعت ، حصہ5 ، ج1 ، ص1017 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   جس وقت یا دن کی منت مانی تھی ، اس دن پوری نہ کی ، تو قضا واجب ہے ۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”النذر المعین اذا صامہ بنیۃ آخر کقضاء رمضان و الکفارۃ کان عن الواجب و علیہ قضاء ما نذر “ ترجمہ : نذرِ معین کے دن جب کسی اور واجب مثلاً: رمضان کی قضا اور کفارہ کی نیت سے روزہ رکھا ، تو (جس کی نیت سے رکھا) اُسی واجب کا روزہ ہو گا اور اس پر منت کے روزے کی قضا واجب ہو گی ۔(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصوم ، الباب الاول ، ج1 ، ص216 ، مطبوعہ کراچی)

   قضا اسی طرح واجب ہوتی ہے ، جس طرح منت میں شرط ذکر کی ہو ۔ چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے : ”القضاء یجب علی حسب الاداء ۔۔۔ فنقول : ۔۔۔ کل صوم یؤمر فیہ بالتتابع لاجل الفعل وھو الصوم یکون التتابع شرطا فیہ حیث دار الفعل ، وکل صوم یؤمر فیہ بالتتابع لاجل الوقت ففوت ذلک الوقت یسقط التتابع وان بقی الفعل ووجب القضاء ، فان من قال : ۔۔۔۔ للّٰه علي أن أصوم شهرا متتابعا، يلزمه أن يصوم متتابعا، لا يخرج عن نذره إلا به، ولو أفطر يوما في وسط الشهر يلزمه الاستقبال ، لأن التتابع ذكر للصوم ، فكان الشرط هو وصل الصوم بعينه ، فلا يسقط عنه أبدا ۔۔۔ والفقہ فی ذٰلک ظاھر ، وھو انہ اذا وجب التتابع لاجل نفس الصوم فما لم یؤدہ علی وصفہ لم یخرج عن عھدۃ الواجب ، ملخصا “ ترجمہ : قضا ادا کے طریقے ہی کے مطابق واجب ہوتی ہے ۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ ہر وہ روزہ کہ جس میں لگاتار رکھنے کا حکم فعل یعنی روزے ہی کی وجہ سے دیا گیا ہے ، اس میں لگاتار رکھنا اس وقت شرط ہو گا ، جب فعل پایا جائے اور ہر وہ روزہ کہ جس میں لگاتار رکھنے کا حکم وقت کی وجہ سے دیا گیا ہو ، تو اس وقت کے گزر جانے سے لگاتار رکھنے کا حکم معاف ہو جائے گا، اگرچہ فعل (یعنی روزے کا حکم) باقی رہے اور قضا واجب ہو ۔ لہٰذا جس شخص نے یہ کہا کہ اللہ پاک کے لیے مجھ پر ایک مہینے کے لگاتار روزے لازم ہیں ، تواس پر لگاتار روزے رکھنا لازم ہو گا ، اس کے بغیر وہ اپنی منت (کی ادائیگی) سے نہیں نکلے گا اور اگر اس نے مہینے کے بیچ میں کسی ایک دن بھی روزہ چھوڑ دیا ، تو اس پر دوبارہ شروع سے روزے رکھنا لازم ہو گا ، کیونکہ لگاتار کی شرط کو روزوں کی وجہ سے ذکر کیا گیا ہے ، تو شرط بعینہٖ لگاتار روزے رکھنا ہوئی ، لہٰذا (لگاتار روزے رکھے بغیر) یہ شرط اس کے ذمے سے کبھی بھی معاف نہیں ہو گی اور اس کی فقہی وجہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب لگاتار رکھنا روزوں ہی کی وجہ سے واجب ہوا ، تو جب تک وہ اس شرط کو اس کے وصف کے مطابق ادا نہیں کرے گا ، تب تک واجب کی ذمہ داری سے بھی نہیں نکلے گا ۔(بدائع الصنائع،کتاب الصوم ،ج02،ص212،مطبوعه کوئٹہ)

   مسلسل روزے رکھنے کی منت کے بعد روزوں میں ناغہ ہو گیا ، تو دوبارہ شروع سے رکھنے لازم ہوں گے ۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے : ”لو قال لله علي أن أصوم يومين أو ثلاثة أو عشرة لزمه ذلك ، ويعين وقتا يؤدي فيه ، فإن شاء فرق وإن شاء تابع إلا أن ينوي التتابع عند النذر فحينئذ يلزمه متتابعا ، فإن نوی فیہ التتابع، وأفطر یوما فیہ أو حاضت المرأۃ فی مدۃ الصوم استأنف واستأنفت کذا فی السراج الوھاج‘‘ترجمہ: منت ماننے والے نے اگر یہ کہا کہ اللہ پاک کے لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں دو دن یا تین دن یا دس دن روزہ رکھوں گا ، تو اس پر یہ منت لازم ہو جائے گی اور اگر وقت مقرر کر لیا ، تو اسی وقت میں منت کو ادا کرے ، پھر چاہے تو الگ الگ کر کے رکھے اور چاہے تو لگاتار رکھے ، لیکن اگر منت مانتے وقت اس نے لگاتار روزوں کی نیت کی ہو ، تو ایسی صورت میں اس پر لگاتار روزے لازم ہوں گے ۔ پھر اگر اس نے منت میں لگاتار روزوں کی نیت کی تھی،لیکن بیچ میں ایک دن روزہ نہیں رکھا یا عورت کو روزوں کی مدت میں حیض آ گیا ، تو ایسی صورت میں مرد اور عورت دوبارہ شروع سے روزے رکھیں۔ اسی طرح سراج وہاج میں ہے ۔(الفتاوی العالمگیریۃ ، کتاب الصوم ، الباب السادس فی النذر ، ج1 ، ص230 ، مطبوعہ کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”ایک مہینے کے روزے کی منت مانی ۔۔۔ اور پے درپے کی شرط لگائی یا دل میں نیّت کی ، تو یہ بھی ضرور ہے کہ ناغہ نہ ہونے پائے ، اگر ناغہ ہوا ۔۔۔ تو اب سے علی الاتصال (لگاتار) روزے رکھے ۔ ملخصا “(بھارِ شریعت ، حصہ5 ، ج1 ، ص1017 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم