فتوی نمبر: HAB-0408
تاریخ اجراء: 15 صفر المظفر 1446ھ/21اگست 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اللہ پاک کی ذات اور صفات کے علاوہ کسی کی قسم کھانا ناجائز ہے ،کیا یہی حکم مقدس اشیاء مثلاً: مسجد ،کعبہ شریف اور قرآن پاک وغیرہ کی قسم کا ہے ؟رہنمائی فرمائیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ و صفات مبارکہ کے علاوہ کسی کی ذات مثلاً: ماں باپ ،اولاد وغیرہ کی قسم کھانا شرعاًناجائز و گناہ ہے، اسی طرح مقدس اشیاء کی قسم کھانا بھی ناجائز و گناہ ہے ،جیسے مسجد کی قسم یا کعبہ شریف کی قسم ۔احادیث مبارکہ میں جو غیر خدا کی قسم کھانے سے ممانعت فرمائی گئی ہے ،اس میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں ،البتہ قرآن مجید کی قسم اس سے مستثنیٰ ہےیعنی سچی بات پر قرآن مجید کی قسم کھانا ،جائز ہے،کیونکہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اورکلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہےاور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ قسم کھانے سے بھی قسم ہوجاتی ہے،لہٰذا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق قرآن کی قسم کھانے کی صورت میں وہ منعقد ہوجائے گی اور توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا ۔
الله جل شانہ کی ذات و صفات کے علاوہ کسی بھی شے کی قسم کھانا، جائز نہیں ،اس کے متعلق صحیح مسلم شریف میں ہے :”عن عبد اللہ بن دينار أنه سمع ابن عمر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:من كان حالفا فلا يحلف إلا بالله“ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتےہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو قسم کھانے کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ صرف اور صرف اللہ کی قسم کھائے ۔ (صحیح المسلم،ج03،ص 1267،دار إحياء التراث العربی، بيروت)
اسی طرح بخاری شریف میں ہے ،حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد ماجد جناب امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں:’’أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أدرك عمر بن الخطاب، وهو يسير فی ركب، يحلف بأبيه، فقال: ألا إن اللہ ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، من كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت۔۔قال عمر: فواللہ ما حلفت بها منذ سمعت النبی صلى اللہ عليه وسلم، ذاكرا ولا آثرا ‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب کو ایک قافلے میں چلتے ہوئے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے والد کی قسم کھارہے ہیں، تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا :خبردار!بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے،جو شخص قسم کھائے،تووہ اللہ کی قسم کھائے یا چُپ رہے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں :اللہ کی قسم !جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح قسم کھانے کی ممانعت سنی ہے،تب سے میں نے نہ اپنی طرف سےاور نہ ہی کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے اس طرح کی قسم کھائی ہے۔ (الصحیح لبخاری ،ج8،ص132، دار طوق النجاۃ )
اسی طرح حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو کعبہ شریف کی قسم کھاتے ہوئے دیکھا، تو اس كو منع فرمايا،چنانچہ ترمذی شریف میں ہے :”عن سعد بن عبيدة، أن ابن عمر سمع رجلا يقول: لا والكعبة، فقال ابن عمر: لا يحلف بغير اللہ“ترجمہ: حضرت سعد بن عبیدہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کعبہ کی قسم تو حضرت ابن عمر نے فرمایا : اللہ کے علاوہ کسی کی قسم نہ کھائی جائے ۔(سنن الترمذی ،ج04،ص 110، مطبعة مصطفى البابی الحلبی ، مصر)
اوپر ذکر کی گئی حدیث ِ بخاری کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں :”(أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: إن اللہ ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم) : أيی مثلا، فإن المراد بالمنهی غير اللہ، وخص بالآباء لأنه كان عادة الأبناء (من كان حالفا ) : أی مريدا للحلف ( فليحلف باللہ ) : أی بأسمائه وصفاته ( أو ليصمت ) ۔۔ ويكره الحلف بغير أسماء اللہ تعالى وصفاته، سواء فی ذلك النبی صلى اللہ عليه وسلم والكعبة والملائكة والأمانة والحياة والروح وغيرها“ترجمہ: (بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے)باپ کا ذکر مثال کے طور پر ہے ،کیونکہ منع کی گئی چیز سے مراد اللہ کے علاوہ ہر شے ہے اور باپ کو اس لیے خاص کیا گیا ،کیونکہ باپ کی قسم کھانا بیٹوں کی عادت تھی(جو شخص قسم کھائے)یعنی قسم کھانے کا ارادہ کرے (تووہ اللہ کی قسم کھائے)یعنی اس کے ناموں یا اس کی صفات کی ( یا چُپ رہے)اور اللہ کے ناموں اور صفات کے علاوہ کسی بھی شے کی قسم کھانا ،مکروہ ہے،اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اور کعبہ،فرشتوں،امانت ،زندگی اور روح وغیرہ کی قسم برابر ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج06،ص 2234،دار الفکر ،بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:”اما اليمين بغير اللہ ۔۔وهواليمين بالآباء والابناء والانبياء والملائكة صلوات اللہ عليهم والصوم والصلاة وسائر الشرائع والكعبة والحرم وزمزم والقبر والمنبر ونحو ذلك،ولا يجوز الحلف بشیء من ذلك۔۔۔۔ولو حلف بذلك لا يعتد به ولا حكم له اصلا ‘‘ترجمہ:بہرحال غیر اللہ کی قسم کھانا :اور وہ باپ،بیٹوں،انبیاءاورفرشتوں(علیہم الصلوٰۃ والسلام)، روزے،نماز اور دیگر دینی احکام، کعبہ، حرم،زمزم،قبر،منبر اور اس کی مثل دیگر اشیاء کی قسم کھانا ہےاوران میں سے کسی بھی چیز کی قسم کھانا، جائز نہیں، اور اگر اس طرح کسی نے قسم کھابھی لی،تو وہ قسم کھانے والا شمار نہیں ہوگا اور اس قسم کا اصلاً کوئی حکم(کفارہ) نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع،ج3،ص21، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
قرآن مجید کی قسم کے متعلق فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’جھوٹی بات پر قرآن مجید کی قسم کھانا یا اٹھانا سخت عظیم گناہ کبیرہ ہے اور سچی بات پر قرآن عظیم کی قسم کھانے میں حرج نہیں اور ضرورت ہوتو اٹھابھی سکتا ہے،مگر یہ قسم کو بہت سخت کرتا ہے، بلاضرورتِ خاصہ نہ چاہئے۔۔۔۔ ہاں مصحف شریف ہاتھ میں لے کر یا اس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کہنی اگر لفظاحلف و قسم کے ساتھ نہ ہو حلف شرعی نہ ہوگا،مثلاً: کہے کہ میں قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ ایساکروں گا اور پھر نہ کیا تو کفارہ نہ آئے گا۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج13،ص574،575،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہارشاد فرماتے ہیں:’’قرآن کی قسم،کلام اللہ کی قسم، ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے۔‘‘(بھار شریعت،ج02،حصہ09،ص301،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا قرآن پاک کا سچا حلف اٹھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
واٹس ایپ میسج کے ذریعے قسم کھائی کیا قسم منعقد ہوگئی؟
کیا یہ جملہ منت ہے کہ میں اپنی کمائی مسجد میں دوں گا؟
قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟
عورت نے مسجد میں نوافل پرھنے کی منت مانی،کیا گھر میں پڑھ سکتی ہے؟
کیا منّت کے نوافل ایک ہی وقت میں پڑھنا ضروری ہیں ؟
منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
نابالغ بچہ قسم توڑ دے ، تو کیا اس پر کفارہ ہوگا ؟