مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13314
تاریخ اجراء:15رمضان المبارک 1445 ھ/26 مارچ 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص موبائل کی اسکرین پر قرآن پاک کھولے اور اس پر ہاتھ رکھ کرقسم اٹھائے
کہ قسم سے میں یہ کام کروں
گا یا یہ کام نہیں کروں گا ، تو کیا یہ قسم ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قسم ہونے نہ ہونے کا مدار الفاظِ قسم پر
ہے خواہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہے یا ہاتھ رکھے بغیر کہے یعنی
اگر کوئی شخص زبان سے الفاظِ قسم ادا کرتے ہوئے کوئی قسم اٹھاتا ہے،
تو اس صورت میں اس کی قسم درست ہوجائے گی، لیکن اگر زبان
سے الفاظ قسم نہیں کہتا بلکہ صرف قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کا ذکر کئے بغیرکوئی
بات کہہ دیتا ہے، تو اس صورت میں یہ قسم نہیں ہوگی ۔
اس تفصیل کے بعدپوچھی گئی
صورت میں جب کوئی شخص موبائل
میں قرآنِ پاک کھول کر اس پر ہاتھ رکھ کرزبان سے الفاظِ قسم ادا کرتے ہوئے
کوئی کام کرنے یانہ کرنے کی قسم اٹھائے جیسے یوں کہے” قسم سے میں یہ
کروں گا “یا کہے ”قسم سے میں یہ کام نہیں کروں گا“،تو اس
صورت میں ا س کی قسم منعقد ہوجائے گی اور قسم ٹوٹ جانے کی صورت میں اس پر کفارہ
بھی لازم آئے گا۔
جوہرہ نیرہ میں ہے:”اذا قال علی یمین او یمین اللہ علی
فھو حالف لانہ صرح بایجاب الیمین علی نفسہ و الیمین
لا یکون الا باللہ تعالیٰ“ یعنی جب کوئی شخص کہے کہ مجھ پر قسم ہے یا
اللہ عزوجل کی قسم مجھ پر ہے تو وہ حالف ہوگا، کیونکہ اس نے اپنے اوپر
قسم لازم کرنے کی صراحت کی ہے
اور قسم صرف اللہ عزوجل ہی کی
ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد2، صفحہ 194، مطبوعہ: المطبعۃ الخیریۃ)
مذکورہ الفاظ سے قسم منعقد ہونے کی وجہ بیان
کرتے ہوئے علامہ ابو السعود مصری رحمۃ اللہ علیہ شرح حموی
کے حوالے سے لکھتے ہیں:”لان ھذہ الالفاظ تستعمل عرفا فی الحلف بحیث لا یفھم منھا غیرہ
فلا حاجۃ الی الاضافۃ“یعنی اس وجہ سے کہ یہ الفاظ عرفاً حلف میں
استعمال ہوتے ہیں اس طرح کہ اس سے قسم کے علاوہ کوئی چیز مفہوم
نہیں ہوتی لہٰذا (اس صورت میں انعقادِقسم کے لئے)لفظِ اللہ کی طرف نسبت کی
حاجت نہیں ۔(فتح اللہ المعین، جلد2،صفحہ 294،مطبوعہ:کراچی)
مذکورہ الفاظ کے ذریعہ کھائی گئی قسم توڑنے پر قسم کا کفارہ بھی لازم ہوگا۔اس
کے متعلق رد المحتار میں ہے:” اذا لم یف بما حلف لزمتہ کفارۃ الیمین “یعنی جب اس نے اس کام کو پورا نہ کیا
جس کا حلف اٹھایا تھا ، تو اس پر
قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔(رد المحتار ، جلد5، صفحہ 510 ، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں
ہے:”ان الفاظ سے بھی
قسم ہوجاتی ہے حلف کرتا ہوں، قسم کھاتا ہوں، میں شہادت دیتا ہوں،
خدا گواہ ہے، خداکو گواہ کرکے کہتا ہوں۔ مجھ پر قسم ہے۔“(بہارِ شریعت، جلد
2، صفحہ 301، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
قرآن پاک پر ہاتھ
رکھ کرکچھ بولنے کے متعلق فتاوی رضویہ میں سیدی
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :”مصحف شریف
ہاتھ میں لے کر یا اس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کہنی اگر
لفظاحلف و قسم کے ساتھ نہ ہو حلف شرعی نہ ہوگامثلاً کہے کہ میں قرآن
مجید پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ ایساکروں گا اور پھر نہ کیا تو
کفارہ نہ آئے گا“(فتاوی رضویہ ،جلد13،صفحہ 575،رضا فاؤنڈیشن
،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا قرآن پاک کا سچا حلف اٹھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
واٹس ایپ میسج کے ذریعے قسم کھائی کیا قسم منعقد ہوگئی؟
کیا یہ جملہ منت ہے کہ میں اپنی کمائی مسجد میں دوں گا؟
قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟
عورت نے مسجد میں نوافل پرھنے کی منت مانی،کیا گھر میں پڑھ سکتی ہے؟
کیا منّت کے نوافل ایک ہی وقت میں پڑھنا ضروری ہیں ؟
منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
نابالغ بچہ قسم توڑ دے ، تو کیا اس پر کفارہ ہوگا ؟