مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-583
تاریخ اجراء:03جمادی الاولی1446ھ/07 نومبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ’’میں یہ کام نہیں کروں گا، اگر کروں گا تومدینۂ منورہ نہیں جاؤں گا‘‘اب اس نے وہ کام کرلیا اور وہ مدینہ منورہ بھی جانا چاہتا ہے،تو وہ اب کیا کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں یہ شرعی اعتبار سے قسم ہی نہیں ہے،لہذا اس پر اُس کام کے کرنے سے قسم کا کفارہ لازم نہیں ہوگا،اور اگر وہ مدینہ منورہ جانا چاہتا ہے، تو جاسکتا ہے۔اس کی نظیر وہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی نے یوں قسم کھائی کہ ’’اگر میں نے یہ کام کیا،تو میں نماز نہیں پڑھوں گا، یا زکوۃ ادا نہیں کروں گا،یا روزہ نہیں رکھوں گا‘‘تو فقہائے کرام کی واضح تصریحات کے مطابق اس طرح کہنے سے قسم نہیں ہوگی اور وہ کام کرنے سے کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
کتاب الاصل ا لمعروف مبسوط امام محمدمیں ہے:’’وكذلك لو حلف الرجل فقال هو يأكل الميتة أو يستحل الخمر أو الدم أو لحم الخنزير أو يترك الصلاة أو الزكاة أو الصيام إن فعل كذا وكذا فليس في شيء من هذا يمينوليس عليه فيه كفارة إذا حنث‘‘ ترجمہ:اور اسی طرح اگر کسی شخص نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے فلاں فلاں کام کیا ،تو وہ مردار کھائے گا،یا شراب،یا خون،یا خنزیر کے گوشت کو اپنے اوپر حلال کرلے گا،یا نماز یا زکوۃ یا روزے کو چھوڑدے گا،تو اس میں سے کوئی چیز بھی قسم نہیں،اور اس کام کے کر لینے پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا۔(کتاب الاصل المعروف مبسوط امام محمد،جلد3،صفحہ179،مطبوعہ کراچی)
بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’إذا قال هو يأكل الميتة أو يستحل الدم أو لحم الخنزير أو يترك الصلاة أو الزكاة إن فعل كذا لا يكون يمينًا، لأن ذلك وعد لا إلزام شيء‘‘ترجمہ:جب کہا کہ اگر اس نے فلاں کام کیا، تو وہ مردار کھائے گا،یا اسے یا خون یا خنزیر کے گوشت کو اپنے اوپر حلال کرلے گا،یا نماز یا زکوۃ کو چھوڑدے گا،تو یہ قسم نہیں کیونکہ یہ محض ایک وعدہ ہے،کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کرنا نہیں ہے۔(البنایۃ شرح الھدایہ، جلد6، صفحہ132، دار الكتب العلميہ، بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:’’ولو قال هو يأكل الميتة أو يستحل الدم أو لحم الخنزير أو يترك الصلاة والزكاة إن فعل كذا فليس شيء من ذلك يمينا لأنه ليس بإيجاب بل هو إخبار عن فعل المعصية في المستقبل‘‘ترجمہ:اور اگر کہا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ مردار کھائے گا،یا خون یا خنزیر کے گوشت کواپنے اوپر حلال کردے گا،یا نماز اور زکوۃ کو ترک کرے گا،تو ان میں سے کچھ بھی قسم نہیں،کیونکہ یہ کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا نہیں ہے،بلکہ یہ مستقبل میں ایک گناہ کے کام کو کرنے کی خبر دینا ہے۔(بدائع الصنائع، جلد3، صفحہ8،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا قرآن پاک کا سچا حلف اٹھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
واٹس ایپ میسج کے ذریعے قسم کھائی کیا قسم منعقد ہوگئی؟
کیا یہ جملہ منت ہے کہ میں اپنی کمائی مسجد میں دوں گا؟
قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟
عورت نے مسجد میں نوافل پرھنے کی منت مانی،کیا گھر میں پڑھ سکتی ہے؟
کیا منّت کے نوافل ایک ہی وقت میں پڑھنا ضروری ہیں ؟
منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
نابالغ بچہ قسم توڑ دے ، تو کیا اس پر کفارہ ہوگا ؟