Marte Waqt Kalma Naseeb Na Ho Kehne Se Kasam Hogi Ya Nahi ?

مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو، کیا اس جملے سے قسم منعقد ہوجائے گی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13078

تاریخ اجراء:        16ربیع الثانی1445 ھ/01نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ اگر کوئی شخص ان الفاظ کے ساتھ قسم کھائے  ”اگر میں نے فلاں کام کیا تو مجھے مرتے وقت کلمہ پڑھنا نصیب نہ ہو“ پھر وہ شخص اپنی اس قسم کو توڑدے، تو کیا اس شخص پر اپنی قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جو الفاظ بولے گئے ہیں یہ قسم کے الفاظ نہیں ہیں ،محض بد دعا کے الفاظ ہیں۔  قسم منعقد ہونے کے لیے قسم کے مخصوص الفاظ ہیں جو کہ یہاں نہیں پائےجارہے۔ یاد رہے کہ مرتے وقت کلمہ پڑھنایہ بہت سعادت کی بات ہے،  اس  کے فضائل احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں کہ جس کا آخری کلام "لا الہ الا اللہ" ہو وہ داخلِ جنت ہوگا۔  پس اس سعادت سے محرومی کی تمنا کرنا بلاشبہ اپنے خلاف بددعا کرنا ہے۔ نیز ایسے جملے کہنے والا اگر اپنی بات میں جھوٹا ہوا تو اس صورت میں گنہگار بھی ہوگا۔

   لہذا  پوچھی گئی صورت میں مذکورہ بالا الفاظ سے قسم منعقد ہی نہیں ہوئی،  اس کا خلاف کرنے پر اس شخص پر قسم کا کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔

   چنانچہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے :”ولوقال :علیہ لعنۃ اللہ ، ان فعل کذا، اوقال: علیہ عذاب اللہ۔۔۔۔۔ لایکون یمینا کذا فی فتاوی قاضی خان‘‘ یعنی اگر  کہا :اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو ، یا  کہا :اس پر اللہ کا عذاب ہو۔۔۔۔ تو ان الفاظ سے قسم نہیں ہوگی ،فتاوی قاضی خان میں یونہی مذکور ہے ۔(فتاوٰی عالمگیری ، کتاب الایمان، ج 02، ص 54، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   کتاب الاصل میں ہے: ”لو حلف رجل فقال: عليه لعنة الله، أو قال: غضب الله ، أو قال: أمانة الله، أو دعا على نفسه بغير ذلك، فليس في شيء من هذا يمين ولا كفارة إذا حنث“یعنی اگر کوئی شخص قسم کھائے  اور کہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو ، یا کہا  اللہ کا غضب ہو، یا کہا  اللہ عزوجل کی امانت ہو، یا اس کے علاوہ الفاظ کے ساتھ اس نے اپنے خلاف بددعا کی تو ان الفاظ سے  قسم منعقد نہیں ہوگی، اور   اس کام کا خلاف کرے تو  قسم کا کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔(الأَصْلُ، کتاب الایمان، ج 02، ص 277، مطبوعہ بیروت)

   فتح القدیر میں ہے :”(ولو قال ان فعلت کذافعلیہ غضب اللہ اوسخطہ فلیس بحالف ، لانہ دعاء علی نفسہ ولایتعلق بالشرط )۔۔۔ غایۃ الامر ان یکون نفس الدعاء معلقابالشرط فكأنه عندالشرط دعاعلی نفسہ ، ولایستلزم وقوع المدعو بل ذلک متعلق باستجابۃ دعائہ“   یعنی کسی شخص نے کہا  اگر میں ایساکروں تو مجھ پر اللہ کاغضب یااس کی ناراضی ہوتوقسم نہیں ہوئی  کیونکہ اس  خود پر بددعاکی ہے۔، شرط کے ساتھ  تعلق نہیں ۔ معاملے کی انتہاء یہ ہے کہ یہاں نفس دعا شرط پر معلق ہے ،کیونکہ اس نے شرط پائے جانے کے وقت خود پر بد  دعاکی ہے ،اور اس سے مانگی گئی دعا کا واقع ہو جانا  لازم نہیں  بلکہ  دعا کی قبولیت سے متعلق ہے۔(فتح القدیر، کتاب الایمان، ج 05، ص 78، مطبوعہ دار الفکر)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”ایک شخص نے اپنی دوسری والدہ کے روبرو ہوش وحواس میں قسم کھائی کہ مجھ کو خداکا دیدار اور حضرت (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کی شفاعت نصیب نہ ہو جو میں اپنے والد کی کمائی کا روپیہ یا جائداد موجودگی یا عدم موجودگی یا بعد وفات والد ماجد کے لوں جائداد میں یا ان کی کمائی میں، اب وہ شخص کسی طرح سے اپنے باپ کی جائداد یا کمائی کا روپیہ لے سکتا ہے یانہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”وہ جو اس نے کہاشرعاً قسم نہیں بلکہ اپنے حق میں بددعا ہے، اس کے سبب مال پدر سے لے لینا ناجائز نہ ہوگیا، لے سکتا ہے، اور ایسے برے لفظ سے توبہ کرے۔ ردالمحتارمیں ہے: "علیہ غضبہ لایکون یمینا ایضالانہ دعاء علی نفسہ۔۔۔۔ الخ"۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 13، ص 508-507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”یہ الفاظ قسم نہیں اگرچہ ان کے بولنے سے گنہگار ہوگا جبکہ اپنی بات میں جھوٹا ہے اگر ایسا کروں تومجھ پر اﷲ (عزوجل) کا غضب ہو۔اوس کی لعنت ہو، اوس کا عذاب ہو۔ خدا کا قہرٹوٹے، مجھ پر آسمان پھٹ پڑے، مجھے زمین نگل جائے۔ مجھ پر خدا کی مارہو، خدا کی پھٹکار ہو،رسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت نہ ملے، مجھے خدا کا دیدار نہ نصیب ہو، مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو۔ (بہارِ شریعت، ج02، ص 302-301، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم