Mannat Ke 100 Nawafil Ek Hi Din Parhne Hon Ge Ya Alag Alag Dino Mein Bhi Parh Sakte hain?

منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1609

تاریخ اجراء:19شوال المکرم1440ھ/23جون2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن نے اس طرح منت مانی کہ اگر اس کا فلاں کام ہوگیا ، تو وہ سو نوافل ادا کریں گی۔ اب ان کا وہ کام ہوگیا ہے ، تو منت کے وہ نوافل ایک ہی دن اکٹھے پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں  کہ تھوڑے آج پڑھ لیے ، پھر اگلے دن ، پھر کچھ دنوں بعد ، اس طرح کر سکتی ہیں یا نہیں ؟

    نوٹ : نیت میں اکٹھے یا الگ الگ ، کسی طرح کی تعیین نہیں تھی ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں جب اس اسلامی بہن نے نوافل اکٹھے یا الگ الگ پڑھنے کی شرط نہیں لگائی تھی اور نہ ہی نیت میں تھا کہ اکٹھے پڑھنے ہیں یا الگ الگ ، سو نوافل کی مطلق نیت تھی ، تو منت پوری ہونے کی صورت میں وہ نوافل تھوڑے تھوڑے کر کے بھی ادا کر سکتی ہیں ، سو نوافل ادا کرنے ضروری ہیں خواہ الگ الگ پڑھے یا اکٹھے پڑھ لے ۔ جیسا کہ کسی نے مطلق دس روزوں کی منت مانی ، تو اب اس کو اکٹھے دس روزے رکھنے کا بھی اختیار ہے اور الگ الگ رکھنے کا بھی اختیار ہے ۔

    مبسوطِ سرخسی میں ہے:” رجل قال لله علی صوم شهر فله أن يصومه متفرقا ، ما يلزمه بالنذر فرع لما هو واجب بايجاب الله تعالى وما أوجب الله تعالى من الصوم مطلقا فتعيين وقت الأداء الى العبد والخيار اليه فی الأداء متفرقا أو متتابعا كقضاء رمضان ، فكذلك ما يوجبه على نفسہ ۔ ملخصاً “ ترجمہ : کسی شخص نے کہا کہ اللہ کے لیے مجھ پر ایک مہینے کے روزے لازم ہیں ، تو ( ایک مہینے کے روزے ) الگ الگ رکھنا اس کے لیے جائز ہے ، ( کیونکہ ) منت کے ذریعہ جو چیز لازم ہوتی ہے ، وہ اس کی فرع ہوتی ہے ، جو چیز اللہ عزوجل کی طرف سے لازم ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے مطلق فرض ہیں ، تو وقت کو معین کرنا بندے کے سپرد کیا گیا اور بندے کو اختیار دیا گیا کہ وہ الگ الگ رکھ لے یا اکٹھے رکھ لے ۔ جیسا کہ رمضان شریف کی قضا کے روزے ۔ ( جیسے روزے کے معاملہ میں یہ قاعدہ ہے ، ) تو ایسے ہی ہر اس چیز کا حکم ہے ، جو بھی بندہ اپنے اوپر لازم کرے ۔ ملخصاً ۔ 

( المبسوط للسرخسی ، کتاب الصوم ، جلد 3 ، صفحہ 170 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” ولو قال لله علی أن أصوم يومين أو ثلاثة أو عشرة لزمه ذلك ويعين وقتا يؤدی فيه فان شاء فرق وان شاء تابع “ ترجمہ : اگر کسی نے ( منت مانتے ہوئے یوں ) کہا کہ اللہ عز و جل کے لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں دو یا تین یا دس دن کے روزے رکھوں ، تو اس کے لیے اُتنے روزے لازم ہوجائیں گے اور وہ کوئی وقت معین کر لے ، جس میں ان کی ادائیگی کرے ، پس اگر چاہے ، تو الگ الگ رکھ لے اور اگر چاہے ، تو اکٹھے رکھ لے ۔

( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الصوم ، الباب الساد فی النذر ، جلد 1 ، صفحہ 209 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

    بہارِ شریعت میں ہے : ” ایک مہینے کے روزے کی منت مانی ، تو پورے تیس ( 30 ) دن کے روزے واجب ہیں، اگرچہ جس مہینے میں رکھے وہ انتیس ہی کا ہو ۔۔۔ اور پے در پے کی نہ شرط لگائی، نہ نیّت میں ہے ، تو متفرق طور پر تیس روزے رکھ لینے سے بھی منت پوری ہو جائے گی۔ “

( بہارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 1017 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم