Karobar Mein Jhooti Ya Sachi Qasam Khana Kaisa ?

کاروبار میں جھوٹی یا سچی قسم کھانا کیسا؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کاروبار میں جھوٹی یا سچی قسم کھانا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جھوٹی قسم کھانا حرام و گناہ ہے چاہے کاروبار میں کھائی جائے یا کاروبار کے علاوہ۔البتہ اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:جھوٹی قسم گزشتہ بات پر دانستہ،اس کا کوئی کفارہ نہیں، اس کی سزا یہ ہے کہ جہنم کے کھولتے دریا میں غوطے دیاجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ،13/611)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی یعنی مثلاً جس کے آنے کی نسبت جھوٹی قسم کھائی تھی یہ خود بھی جانتا ہے کہ نہیں آیاہے تو ایسی قسم کو غموس کہتے ہیں۔غموس میں سخت گنہگار ہوا استغفار و توبہ فرض ہے مگر کفارہ لازم نہیں۔(بہارِ شریعت،2/299)

   سچی قسم کھانا گناہ نہیں لیکن بات بات پر قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں بلکہ کاروبار میں زیادہ قسمیں کھانے سے حدیث پاک میں منع کیا گیاہے کہ اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے:عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ،أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَى اللهُ عَلَيهِ وَسَلم، يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ ترجمہ:حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بیع میں قسم کی کثرت سے پرہیز کرو کیونکہ یہ چیز کو بکوادیتی ہے لیکن برکت کو مٹادیتی ہے۔ (مسلم،ص668،حدیث: 4126)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم