Job Lagne Par Mehfil e Milad Ki Mannat Mangi Tu Mannat Poori Karne Ka Hukum

JOB لگنے پر محفلِ میلاد کی منت مانی، تو پورا کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12933

تاریخ اجراء: 17 محرم  الحرام1445 ھ/05اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے منت  مانی کہ اگر میری جاب لگ گئی تو میں گھر پر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی محفل سجاؤں گا؟ اب زید کی جاب لگ گئی ہے، آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس منت کو پورا کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید نے جو منت مانی تھی یہ شرعاً منت نہیں، لہذا اس منت کا پورا کرنا زید  پر لازم نہیں۔ البتہ اس منت کو  پورا کرلینا زید کے لیے بہتر ہے کہ محفلِ میلاد تو عین سعادت مندی کی بات ہے ، اس سے گھر میں رحمتوں اور خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے ۔

   فتاوٰی عالمگیری  میں منت شرعی کےبارے میں ہے:” أن النذر لا يصح إلا بشروط  أحدها  أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض“یعنی منت  چند شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی ہے، وہ واجب کی جنس سے ہو، اسی لیے مریض کی عیادت کرنے کی منت مانناشرعا درست نہیں۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الیمین، ج01،ص208، مطبوعہ  پشاور)

   ردالمحتار میں ہے:”وفی البدائع ومن شروطہ ان یکون قربۃ مقصودۃ فلایصح النذر بعیادۃ المریض وتشیع الجنازۃ والوضوءوالاغتسال ودخول المسجد  ومس المصحف،والاذان وبناء الرباطات والمساجد وغیر ذلک وان کانت قربالانھا غیر مقصودۃ“یعنی بدائع میں ہے منت کی شرائط میں سے ایک شرط ہے کہ وہ کام عبادت مقصودہ میں سے ہو،لہذا مریض کی عیادت کی منت،جنازے کے ساتھ جانے،وضو، غسل کرنے،مسجد میں داخل ہونے،قرآن چھونے ،اذان دینے  ، مسجدا ور پل بنانے کی منت  وغیرہ شرعی منت نہیں ہے کیونکہ یہ کام اگر چہ نیکی کے  ہیں مگر یہ عبادت مقصودہ نہیں ہیں۔(ردالمحتار، کتاب الیمین ،ج03،ص735،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”(۱) زید نے نذرمانی کہ اگر میرا فلاں کام اﷲ کردے گا تو میں مولود شریف یا گیارھویں شریف وغیرہ کروں گا، تو کیا اس کھانے یا مٹھائی کو اغنیاء بھی کھاسکتے ہیں؟ (۲) زید نے یہ نذر مانی کہ اگرمیرا کام ہوجائے گا تو میں اپنے احباب کو کھانا کھلاؤں گا، تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا۔؟ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”(۱) مجلس میلاد و گیارھویں شریف میں عرف و معمول یہی ہے کہ اغنیاء و فقراء سب کو دیتے ہیں ۔ جو لوگ ان کی نذر مانتے ہیں اسی طریقہ رائجہ کا التزام کرتے ہیں نہ یہ کہ بالخصوص فقراء پر تصدّق، تو اس کا لینا سب کو جائز ہے، یہ نذورفقہیہ سے نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔ (۲) یہ کوئی نذر شرعی نہیں، وجوب نہ ہوگا، اور بجالانا بہتر، ہاں اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں تو وجوب ہوجائے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(فتاوٰی رضویہ، ج13،ص584، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”مساجد میں شیرینی لے جائیں گے یا نمازیوں  کو کھلائیں گے، یہ کوئی نذر شرعی نہیں، جب تک خاص فقراء کے لئے نہ کہے اسے امیر فقیرجس کو دے، سب لے سکتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(فتاوٰی رضویہ، ج13، ص585، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں اس سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :”مسجد میں چراغ جلانے یا طاق بھرنےیا فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے یا گیارھویں کی نیاز دِلانے یا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا توشہ یا شاہ عبدالحق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا توشہ کرنے یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے یا محرم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے یا میلاد شریف کرنے کی منّت مانی تویہ شرعی منّت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں،  کرے تو اچھا ہے۔ “(بہار شریعت،ج02،ص317، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم