Deeni Kaam Karne Ki Mannat Mangne Ka Hukum

دینی کام کرنے کی منت ماننے کا حکم

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1175

تاریخ اجراء: 02جمادی الاول1445 ھ/17نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی نے کہا کہ میرا فلاں کام ہوگیا، تو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں اتنا اتنا وقت دوں گا، کیا یہ منتِ شرعی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر بعینہٖ دینی کاموں میں وقت دینے کے الفاظ تھے ،تو یہ منت شرعی نہ ہوئی، البتہ کام ہو جانے پر اور ویسے بھی دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کارِ ثواب اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔

   بہارشریعت میں ہے:”شرعی منّت جس کے ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، اس کے لیے مطلقاً چند شرطیں ہیں:(1) ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو،عیادتِ مریض اور مسجد میں جانےاور جنازہ کے ساتھ جانے کی منت نہیں ہو سکتی۔ (2) وہ عبادت  خود  بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو ، لہٰذا وضو و غسل و نظرِ مصحف کی منّت صحیح نہیں۔“(بہارشریعت ،جلد1،صفحہ 1015، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم