Bimari Ke Sabab Mannat Ke Roze Na Rakh Saken Tu Fidya Dena Kaisa ?

بیماری کے سبب منت کے روزے نہ رکھ سکیں تو فدیہ دینا جائز ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12960

تاریخ اجراء:        04 صفر المظفر1445 ھ/22اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ  نے عمر بھر محرم کے ابتدائی دس دن روزہ رکھنے کی یوں منت مانی کہ:”میرا  بیٹا ٹھیک ہوجائے تو میں عمر بھر محرم کے ابتدائی دس دنوں کے روزے رکھوں گی ۔“اب اس  کا بیٹا تو  ٹھیک ہوگیا ہے، لیکن ہندہ بیماری کے سبب وہ روزے رکھنے پر قدرت نہیں رکھتی۔  آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ  اس صورت میں ہندہ  کے لیے روزوں کے فدیے کا کیا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص منت کو کسی ایسے کام پر معلق کرے  جس کام کا ہونا وہ چاہتا ہو، تو  شرط پائی جانے کی صورت میں یعنی اس کام کے ہونے کی صورت میں اُس منت کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔  پوچھی گئی صورت میں وہ شرط پائی  گئی  یعنی ہندہ کا بیٹاٹھیک ہوگیا تو ہندہ پر اپنی اُس منت کو پورا کرنا واجب ہے۔  لہذا  صورتِ مسئولہ میں ہندہ بیماری ختم ہونے پر عمر بھر محرم کے ابتدائی دس دنوں کے روزے رکھے اور جو روزے بیماری کے سبب اب تک قضا ہوچکے ہیں ، ان روزوں کو بھی ادا کرے۔ واضح رہے کہ یہاں ہندہ پر منت کی وجہ سے ہر سال محرم کے ابتدائی10 دن روزے رکھنا لازم ہوئے ہیں، لہذا ان دنوں میں اگر مخصوص ایام آجاتے ہیں تو بعد میں اتنے روزوں کی قضا کرنا بھی لازم ہوگا۔

   البتہ  روزے کے بجائے اس کا  فدیہ ادا کرنے کا حکم فقط شیخِ فانی کے لیے ہے، مطلق مریض کے لیے یہ حکم نہیں۔ شیخِ فانی وہ شخص ہوتا ہے  جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ حقیقتاً اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہ ہو، نہ سردی میں نہ گرمی میں، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں  روزہ رکھنے کی طاقت  آنے کی امید ہو۔ ایسے شیخِ فانی  کے لیے شرعاً حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ روزے کا فدیہ ادا کرے خواہ وہ روزہ رمضان کا ہو یا قضا کا ہو یا منت کا ہو، بہر صورت اس کے لیےحکم یہ ہے کہ وہ  اس روزے کا فدیہ ادا کرے۔  البتہ اگر فدیہ دینے کے بعد شیخِ فانی میں اتنی طاقت آجائے کہ وہ روزہ رکھ سکتا ہے تو اس صورت میں  دیا گیا فدیہ نفل شمار ہوگا اور نئے سرے سے روزے کی قضا ذمہ پر لازم آئے گی۔

   خلاصہ کلام یہ ہے کہ پوچھی گئی صورت  میں ہندہ کے لیے روزوں کے فدیہ کا حکم نہیں ہے بلکہ ہندہ صحت یاب ہونے پر ان روزوں کی قضا کرے۔ ہاں! اگر ہندہ شیخ فانی کی حد تک بھی نہ پہنچے اور بیماری کے سبب اسے منت کے  روزے رکھنے کا موقع بھی نہ ملے، تو اب ہندہ  پر ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کر نابھی  شرعاً لازم نہیں اور اگر روزے رکھنا کا موقع ملا تھا پھر بھی روزے نہ رکھے تو اب وصیت کرنا شرعاً لازم ہوگا۔

   شرط پائی جانے کی صورت میں منت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفى) وجوبا (إن وجد) الشرط “یعنی اگر کوئی شخص نذر کو کسی ایسی شرط پر معلق کرے کہ جس کا ہونا اسے  پسند ہو، جیساکہ وہ کہے اگر میرا  غائب شخص لوٹ آئے یا میرے  مریض کو شفا مل جائے، تو  شرط  پائے جانے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ہی اس پر واجب ہوگا۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الایمان، ج 05، ص 543-542، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اُس کے ہونے کی خواہش ہے مثلاً اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ۔ ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا تو اُتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اُس کے عوض میں کفارہ دیدے۔“(بہارشریعت ،ج02،ص314، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

   فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”ہندہ نے اپنی بیماری کی حالت میں دعا مانگی کہ اے خدا میں اچھی ہوجاؤں تو سال بھر ہر جمعہ کو روزہ رکھوں گی ۔ خدا کے فضل سے ہندہ اچھی ہوگئی اور کچھ دنوں تک روزہ رکھا ، طبیعت پھر خراب ہوگئی۔ اب ہندہ چاہتی ہے کہ اگر روزہ کے بدلے میں اس کا کفارہ ہو تو ادا کردوں ، روزہ نہ رکھنا پڑے۔ برائے کرم آگاہ فرمائیں کہ شریعت کا کیا حکم ہے؟ روزہ ہی رکھنا پڑے گا یا روزے کے بدلے کفارہ دینے سے کام بن جائے گا اور ایک روزے کے بدلے میں کتنا کفارہ دینا پڑے گا؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :”صورتِ مسئولہ میں اگر پھر بیمار ہوگئی تو تندرست ہوجانے کے بعد سال میں جتنے جمعے کے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رکھے کہ اس قسم کی منت میں روزہ نہ رکھنا اور اس کے عوض میں کفارہ دینا جائز نہیں ۔(فتاوٰی فیض الرسول،ج02،ص340-339، شبیر برادرز، لاہور )

   عورت نے حیض کے سبب منت کا روزہ نہ رکھا، تو اس روزے کی قضا لازم ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی تاتارخانیہ، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ إذا قالت للہ علی ان اصوم یوم الخمیس فجاء یوم الخمیس وھی حائض فعلیھا القضاء“ یعنی اگر کسی عورت نے یہ کہا کہ مجھ پر اللہ عزوجل کے لیے ہر جمعرات کے دن روزہ رکھنا لازم ہے ، پھر جمعرات کا دن آنے پر وہ حیض سے تھی تو اس پر  روزے کی قضاء لازم ہے۔(الفتاوٰی التاتارخانیہ، کتاب الصوم، باب النذور، ج 03، ص 435، مطبوعہ ہند)  

   مریض نے مرض کے سبب منت کا روزہ نہ رکھا، تو اس روزے کی قضا لازم ہے۔ جیسا کہ محیطِ برہانی میں ہے:” إذا نذر صوم رجب، فدخل رجب، وهو مريض لا يستطيع الصوم الا بضرر  أفطر وقضى“ یعنی اگر کسی شخص نے رجب کے روزوں کی منت مانی پھر جب رجب کا مہینہ آیا  تو وہ اتنا  بیمار ہے کہ اس میں روزہ رکھنے کی استطاعت ہی نہیں، تو وہ روزہ چھوڑدے اور بعد میں اس روزے کی قضا کرے۔(المحیط البرھانی، کتاب الصوم، ج 03، ص 388، ادارۃ القرآن) 

   شیخِ فانی منت کے روزوں کا فدیہ ادا کرے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، فتح القدیر، فتح باب العنایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميسا واحدا فعليه قضاؤه كذا في المحيط۔ ولو أخر القضاء حتى صار شيخا فانياً ۔۔۔۔۔۔فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا على ما تقدم ، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم، ولو لم يقدر لشدة الزمان كالحر فله أن يفطر وينتظر الشتاء فيقضي كذا في فتح القدير۔“ یعنی اگر کسی شخص نے ہر جمعرات کو روزہ رکھنے کی منت مانی پھر کسی ایک جمعرات اس نے روزہ نہ رکھا تو اس پر  روزے کی قضا لازم ہے، جیسا کہ محیط میں مذکور ہے۔ اور اگر اس نے روزے کی قضاء  کو مؤخر کیا یہاں تک کہ  شیخِ فانی ہوگیا ۔۔۔۔تو اب اُس کے لیے جائز ہے کہ وہ افطار کرے اور ہر روزے کے بدلے ایک دن کسی مسکین کو کھانا کھلائے جس کی تفصیل ماقبل گزرچکی ہے۔  اگر وہ تنگدستی کی وجہ سے فدیہ دینے  پر بھی قادر نہ ہو تو اب وہ اللہ عزوجل سے معافی مانگے کہ بے شک وہ غفور اور رحیم ہے، ہاں اگر وہ موسم کی شدت کی بنا پر مثلاً گرمیوں میں روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو تو اسے جائز ہے کہ وہ روزہ چھوڑدے اور سردیوں کا انتظار کرے پھر  (سردیوں میں) روزے کی قضا کرے، جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الصوم، ج 01، ص 209، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   فتاوٰی شامی میں اس حوالے سے منقول ہے:”لو نذر صوماً معيناً فلم يصم حتى صار فانيا جازت له الفدية، بحر۔“یعنی اگر کسی شخص نے معین دن کے روزے کی منت مانی پھر  روزہ نہ رکھا یہاں تک کہ  شیخ فانی ہوگیا تو اب  روزے کا فدیہ دینا جائز ہے، "بحر"۔“(رد المحتار مع در المختار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض، ج 03، ص 472 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   روزے کا فدیہ ادا کرنے کا حکم فقط شیخِ فانی ہی کے لیے ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی  رضویہ میں ہے:”بعض جاہلوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لئے جائز ہے جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو، ایسا ہر گز نہیں۔  فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقۃً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو، نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی،  ضُعف بڑھے گا اُس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 521، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سیدی اعلیٰ حضرت ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفار ہ دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبل شفاموت آجائے تواس وقت کفارہ کی وصیت کردیں، غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق، اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھا پا تو جانے کی چیز نہیں ، ایسے شخص کو کفارہ کاحکم ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 547، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

      انتقال کے بعد میت کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کے حوالے سے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی وصیّت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے، مگر نہ رکھے تو وصیّت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجہ اَولیٰ وصیّت کرنا واجب ہے اور وصیّت نہ کی، بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔“(بہارشریعت،ج01،ص1005، مکتبۃ  المدینۃ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم