Bacha Paida Hone Par Mithai Bantne Ki Mannat Manna Kaisa ?

بچہ پیدا ہونے پر مٹھائی تقسیم کرنے کی منت ماننےکی شرعی حیثیت کیا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12480

تاریخ اجراء:        21ربیع الاول1444 ھ/18اکتوبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہند ہ نے منت مانی کہ اگرمیرے ہاں  بچہ پیدا  ہوا تو اس کے وزن کے برابر مٹھائی رشتہ داروں اور اہلِ محلہ میں تقسیم کروں گی۔ ہندہ کے ہاں  بچہ پیدا ہوکر کچھ دن بعد فوت ہوگیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ اب  ہندہ کے لیے کیا حکمِ شرعی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں ہندہ نے جو منت مانی تھی ،یہ شرعی منت نہیں، لہذا اس منت کا پورا کرنا ہندہ پر لازم نہیں۔

   فتاوٰی عالمگیری  میں منت شرعی کےبارے میں ہے:” أن النذر لا يصح إلا بشروط  أحدها  أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض“یعنی منت  چند شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی ہے، وہ واجب کی جنس سے ہو، اسی لیے مریض کی عیادت کرنے کی منت مانناشرعا درست نہیں۔(فتاوٰی عالمگیری،ج01،ص208،مطبوعہ  پشاور)

   ردالمحتار میں ہے:”وفی البدائع ومن شروطہ ان یکون قربۃ مقصودۃ فلایصح النذر بعیادۃ المریض، تشیع الجنازۃ والوضوءوالاغتسال ودخول المسجد  ومس المصحف،والاذان وبناء الرباطات والمساجد وغیر ذلک وان کانت قربالانھا غیر مقصودۃ“یعنی بدائع میں ہے منت کی شرائط میں سے ایک شرط ہے کہ وہ کام عبادت مقصودہ میں سے ہو،لہذا مریض کی عیادت کی منت،جنازے کے ساتھ جانے،وضو، غسل کرنے،مسجد میں داخل ہونے،قرآن چھونے کی،اذان دینے کی اور مسجدا ور پل بنانے کی منت  وغیرہ شرعی منت نہیں ہےکیونکہ یہ کام اگر چہ عبادت ہیں مگر یہ عبادت مقصودہ نہیں ہیں۔(ردالمحتار،ج05،ص537،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”(۱) زید نے نذرمانی کہ اگر میرا فلاں کام اﷲ کردے گا تو میں مولود شریف یا گیارھویں شریف وغیرہ کروں گا، تو کیا اس کھانے یا مٹھائی کو اغنیاء بھی کھاسکتے ہیں؟ (۲) زید نے یہ نذر مانی کہ اگرمیرا کام ہوجائے گا تو میں اپنے احباب کو کھانا کھلاؤں گا، تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا؟ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”(۱) مجلس میلاد و گیارھویں شریف میں عرف و معمول یہی ہے کہ اغنیاء و فقراء سب کو دیتے ہیں جو لوگ ان کی نذر مانتے ہیں اسی طریقہ رائجہ کا التزام کرتے ہیں نہ یہ کہ بالخصوص فقراء پر تصدّق، تو اس کا لینا سب کو جائز ہے، یہ نذورفقہیہ سے نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔ (۲) یہ کوئی نذر شرعی نہیں، وجوب نہ ہوگا، اور بجالانا بہتر، ہاں اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں تو وجوب ہوجائے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(فتاوی رضویہ، ج13،ص584، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

    ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:مساجد میں شیرینی لے جائیں گے یا نمازیوں  کو کھلائیں گے، یہ کوئی نذر شرعی نہیں، جب تک خاص فقراء کے لئے نہ کہے اسے امیر فقیر جس کو دے،سب لے سکتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(فتاوی رضویہ، ج13، ص585، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم