Aurat Ne Uzr Ke Sabab Mannat Ka Roza Na Rakha Tu Kya Hukum Hai?

عورت نے عذر کے سبب منت کا روزہ نہ رکھا، تو  کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13129

تاریخ اجراء: 07جمادی الاولیٰ1445 ھ/22نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ایک عورت نے یوں منت مانی کہ ”میرا فلاں کام اگر ہوگیا تو میں ساری زندگی نوچندی جمعرات کا روزہ رکھوں گی“ اب اُس کا وہ کام بھی ہوگیا ہے اور وہ ہر نوچندی جمعرات کا روزہ بھی رکھ رہی ہے۔  لیکن ایک نوچندی جمعرات کا روزہ کسی عذر کے سبب وہ نہ رکھ سکی۔ اب کیا اُس روزے کی فقط قضا کرنا ہوگی ؟ یا پھر ساتھ میں کوئی کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں عورت پر اُس منت کے روزے کی فقط قضاکرنا  لازم ہے یعنی قضا کی نیت سے ایک دن کا روزہ رکھ لے۔

   تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص منت کو کسی ایسے کام پر معلق کرے  جس کام کا ہونا وہ چاہتا ہو، تو  شرط پائی جانے کی صورت میں یعنی اس کام کے ہونے کی صورت میں اُس منت کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اب جبکہ پوچھی گئی صورت میں چونکہ اُس عورت کا وہ کام ہوگیا ہے، لہذا اب اُس عورت پر زندگی بھر نوچندی جمعرات کا روزہ رکھنا لازم ہے۔

   البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر وہ عورت منت کا روزہ نہ رکھ سکے خواہ عذر کے سبب یا بغیر عذر کے، بہر صورت بعد میں اُس روزے کی فقط قضا کرنا ہی اُس عورت کے ذمے پر لازم ہوگا ۔

   شرط پائی جانے کی صورت میں منت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفى) وجوبا (إن وجد) الشرط “یعنی اگر کوئی شخص نذر کو کسی ایسی شرط پر معلق کرے کہ جس کا ہونا اسے  پسند ہو، جیساکہ وہ کہے اگر میرا  غائب شخص لوٹ آئے یا میرے  مریض کو شفا مل جائے، تو  شرط  پائے جانے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ہی اس پر واجب ہوگا۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الایمان، ج 05، ص 543-542، مطبوعہ کوئٹہ)

   منت کا روزہ نہ رکھا ہو، تو بعد میں اُس روزے کی فقط قضا لازم ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی تاتارخانیہ، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ إذا قالت للہ علی ان اصوم یوم الخمیس فجاء یوم الخمیس وھی حائض فعلیھا القضاء“ یعنی اگر کسی عورت نے یہ کہا کہ مجھ پر اللہ عزوجل کے لیے ہر جمعرات کے دن روزہ رکھنا لازم ہے ، پھر جمعرات کا دن آنے پر وہ حیض سے تھی تو اس پر  روزے کی قضاء لازم ہے۔(الفتاوٰی التاتارخانیہ، کتاب الصوم، باب النذور، ج 03، ص 435، مطبوعہ ہند)  

   محیطِ برہانی میں ہے:” إذا نذر صوم رجب، فدخل رجب، وهو مريض لا يستطيع الصوم الا بضرر  أفطر وقضى“ یعنی اگر کسی شخص نے رجب کے روزوں کی منت مانی پھر جب رجب کا مہینہ آیا  تو وہ اتنا  بیمار ہے کہ اس میں روزہ رکھنے کی استطاعت ہی نہیں، تو وہ روزہ چھوڑدے اور بعد میں اس روزے کی قضا کرے۔(المحیط البرھانی، کتاب الصوم، ج 03، ص 388، ادارۃ القرآن) 

   فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”ہندہ نے اپنی بیماری کی حالت میں دعا مانگی کہ اے خدا میں اچھی ہوجاؤں تو سال بھر ہر جمعہ کو روزہ رکھوں گی ۔ خدا کے فضل سے ہندہ اچھی ہوگئی اور کچھ دنوں تک روزہ رکھا ، طبیعت پھر خراب ہوگئی۔ اب ہندہ چاہتی ہے کہ اگر روزہ کے بدلے میں اس کا کفارہ ہو تو ادا کردوں ، روزہ نہ رکھنا پڑے۔ برائے کرم آگاہ فرمائیں کہ شریعت کا کیا حکم ہے؟ روزہ ہی رکھنا پڑے گا یا روزے کے بدلے کفارہ دینے سے کام بن جائے گا اور ایک روزے کے بدلے میں کتنا کفارہ دینا پڑے گا؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :”صورتِ مسئولہ میں اگر پھر بیمار ہوگئی تو تندرست ہوجانے کے بعد سال میں جتنے جمعے کے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رکھے کہ اس قسم کی منت میں روزہ نہ رکھنا اور اس کے عوض میں کفارہ دینا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی فیض الرسول،ج02،ص340-339، شبیر برادرز، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم