Aam Bol Chaal Mein Lafz Qasam Se Bola Jata Hai, Is Surat Mein Qasam Ka Kiya Hukum Hai?

عام بول چال میں جو لفظ "قسم سے" بولا جاتا ہے، کیا اس سے شرعاً قسم منعقد ہوجائے گی؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12727

تاریخ اجراء:26رجب المرجب1444ھ/18فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عام بول چال میں کسی اہم بات میں لفظ "قسم سے" بولتے ہیں۔جیسا کہ کوئی شخص کہے کہ” قسم سے میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔“ تو کیا اس صورت میں یہ شرعاً قسم ہوگی؟ توڑنے پر کفارہ لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قسم کی تین اقسام ہیں (1) یمین لغو: اس سے مراد ماضی کی کسی بات پر اپنے خیال کے مطابق سچی قسم کھانا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو اور وہ سچی قسم نہ ہو۔ (2) یمین غموس: اس سے مراد ماضی کی کسی بات پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا۔ (3) یمین منعقدہ : اس سے مراد مستقبل میں  کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا، یاد رہے کہ فقط اس تیسری قسم یعنی  یمینِ منعقدہ  کو توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم آتا ہے۔

   سوال میں ذکر کردہ الفاظ کا تعلق چونکہ  تیسری قِسم  یعنی یمین منعقدہ سے ہے لہذا پوچھی گئی صورت میں بلاشبہ ان الفاظ ” قسم سے میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔“ سے قسم منعقد ہوجائے گی جسے توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی لازم ہوگا، کیونکہ اللہ عزوجل کا نام لیے بغیر فقط "قسم" کے الفاظ کہنے سے بھی قسم منعقد ہوجاتی ہے۔اب  خواہ کسی شخص نے مستقبل کے کسی کام پر غلطی سے بغیر ارادے کے ان الفاظ سے قسم کھالی جب بھی قسم ٹوٹنے کی صورت میں قسم کا کفارہ  لازم  ہوگا۔

   البتہ  یہاں یہ ضرور یاد رہے کہ بعض لوگ ماضی کی بات پر بھی قسمیں کھا جاتے ہیں مثلاً ”قسم سے میں نے فلاں کام نہیں کیا یا فلاں سے بات نہیں کی وغیرہ وغیرہ“تو اس صورت میں اگر وہ  قسم سچی ہوئی تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور بلا ضرورت سچی قسم بھی اٹھانے سے بچنا چاہیے ، اور اگر جھوٹی قسم اٹھائیں تو  جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھانا    سخت گناہ کا کام ہے اس کی شدید مذمت احادیثِ مبارکہ میں بیان ہوئی ہے لیکن بہر صورت ماضی کی کسی بات پر کھائی گئی قسم پر اصلاً کفارہ لازم نہیں۔

   اللہ عزوجل کا نام لیے بغیر فقط قسم کے الفاظ سے بھی قسم منعقد ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصارمع الدر المختار  میں ہے :”(و)القسم ایضاً بقولہ علی (یمین او عھد و ان لم یضف)الی اللہ تعالیٰ اذا علقہ بشرط، مجتبی“ یعنی اسی طرح ان الفاظ سے بھی قسم منعقد ہوجائے گی کہ مجھ پر قسم ہے یا عہد ہے اگر چہ وہ اسے اللہ عزوجل کی طرف منسوب نہ کرے جبکہ وہ اسے کسی شرط  پر معلق کرے"مجتبی" ۔

   اس عبارت کے تحت فتاوٰی  شامی میں ہے:”قولہ(اذا علقہ بشرط)ای: بمحلوف علیہ حتیٰ یکون یمیناً منعقدۃ“یعنی شارح کے اس قول(اذا علقہ بشرط)سے مراد یہ ہے کہ جب وہ ان الفاظ کو  محلوف علیہ پر معلق کرے یہاں تک کہ وہ یمین منعقدہ ہوجائے۔“(رد المحتار مع در المختار، کتاب الایمان، ج 05، ص 510 ، مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً)

   فتاوٰی  قاضی خان میں ہے :” لو قال علیہ یمین ان لا یفعل کذا یکون یمیناً“یعنی جب کوئی شخص یوں  کہے کہ اس  پر قسم ہے کہ وہ فلاں کام نہیں کرے گا تو یہ قسم ہوگی۔ (فتاوٰی  قاضی خان، کتاب الایمان، ج 01، ص 533 ،  مطبوعہ کراچی)

   جوہرہ نیرہ میں ہے:اذا قال علی یمین او یمین اللہ علی فھو حالف لانہ صرح بایجاب الیمین علی نفسہ و الیمین لا یکون الا باللہ تعالیٰ“ یعنی جب کوئی شخص کہے کہ مجھ پر قسم ہے یا اللہ عزوجل کی قسم مجھ پر ہے تو وہ حالف ہوگا، کیونکہ اس نے اپنے اوپر قسم لازم  کرنے کی صراحت کی ہے اور قسم صرف اللہ عزوجل ہی کے نام کی ہوتی ہے۔(الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الایمان، ج 02، ص 276،  مطبوعہ کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے حلف کرتا ہوں، قسم کھاتا ہوں، میں شہادت دیتا ہوں، خدا گواہ ہے، خداکو گواہ کرکے کہتا ہوں۔ مجھ پر قسم ہے۔(بہارِ شریعت، ج 02، ص 301، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قسم کی تینوں اقسام بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:” قسَم کی تین قِسم ہے(۱)غموس۔(۲)لغو۔(۳) منعقدہ۔ اگر کسی ایسی چیز کے متعلق قسم کھائی جو ہوچکی ہے یا اب ہے یا نہیں ہوئی ہے یا اب نہیں ہے مگروہ قسم جھوٹی ہے مثلاً قسم کھائی فلاں شخص آیا اور وہ اب تک نہیں آیا ہے یا قسم کھائی کہ نہیں آیا اور وہ آگیا ہے یا قسم کھائی کہ فلاں شخص یہ کام کر رہا ہے اور حقیقتہً وہ اس وقت نہیں کر رہا ہے یا قسم کھائی کہ یہ پتھر ہے اور واقع میں وہ پتھر نہیں، غرض یہ کہ اس طرح جھوٹی قسم کی دوصورتیں ہیں جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی یعنی مثلاً جس کے آنے کی نسبت جھوٹی قسم کھائی تھی یہ خود بھی جانتا ہے کہ نہیں آیاہے تو ایسی قسم کو غموس کہتے ہیں۔ اور اگر اپنے خیال سے تو اوس نے سچی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں وہ جھوٹی ہے مثلاً جانتاتھا کہ نہیں آیا اور قسم کھائی کہ نہیں آیا اور حقیقت میں وہ آگیا ہے تو ایسی قسم کو لغوکہتے ہیں۔ اور اگر آئندہ کے لیے قسم کھائی مثلاً خداکی قسم میں یہ کام کروں گا یا نہ کروں گا تو اس کو منعقدہ کہتے ہیں۔“(بہارشریعت،ج 02 ، صفحہ 299-298، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   یمین منعقدہ توڑنے پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”ومنعقدۃ وھو أن یحلف علی أمر فی المستقبل أن یفعلہ أو لا یفعلہ وحکمہ لزوم الکفارۃ عند الحنث“یعنی قسم کی تیسری قسم یمینِ منعقدہ ہے،اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مستقبل کے معاملے پر قسم کھائے کہ اس کو کرے گا،یا نہیں کرے گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ قسم توڑنے پر کفارہ لازم ہوجائے گا۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الایمان، ج02،ص52،مطبوعہ پشاور)

   درِ مختارمیں ہے:”(منعقدۃ وھی حلفہ علی) مستقبل(آت وفیہ الکفارۃ فقط ان حنث) یعنی یمینِ منعقدہ آنے والےوقت (  زمانہ مستقبل )پر حلف اٹھاناہے اوراس قسم کے توڑنے پر صرف کفارہ لازم ہوتا ہے ۔(رد المحتار مع در المختار، کتاب الایمان، ج05،ص496،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اگر آئندہ کے لئے قسم کھائی مثلاً خدا کی قسم میں یہ کام کروں گا یا نہ کروں گا تو اس کو منعقدہ کہتے ہیں۔۔۔یمینِ منعقدہ جب توڑے گاکفارہ لازم آئےگا۔۔۔۔۔غلطی سے قسم کھا بیٹھا مثلاً کہنا چاہتا تھا کہ پانی لاؤ یاپانی پیوں گا اور زبان سے نکل گیا کہ خدا کی قسم پانی نہیں پیوں گا یا یہ قسم کھانا نہ چاہتا تھا دوسرے نے قسم کھانے پر مجبور کیا تو وہی حکم ہے جو قصداً اور بلا مجبور کیے قسم کھانے کا ہے یعنی توڑے گا تو کفارہ دینا ہوگا۔“(بہارِ شریعت،ج02، ص300-299، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   ماضی کی کسی بات پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانے سے متعلق سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:” جھوٹی قسم گزَشتہ بات پر دانِستہ(یعنی جان بوجھ کر کھانے والے پر اگر چِہ)اس کا کوئی کفارہ نہیں ،(مگر) اس کی سزا یہ ہے کہ جہنَّم کے کَھولتے دریا میں  غَوطے دیاجائے گا۔“(فتاوٰ ی رضویہ ،ج13،ص 611،رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم