مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0436
تاریخ اجراء: 17 ربیع الثانی1446ھ/21اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نابالغ کا موجود ہ سونا بعد میں اسی کی مثل لوٹانے کی نیت سے لینا ،قرض کا معاملہ ہے، جوضرر محض ہے اور شرعی قاعدہ ہے کہ جس تصرف سے نابالغ کومحض ضرر ہو ،ایسا تصرف اس کا ولی بھی نہیں کر سکتا،در مختار میں ہے:” (إن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما)“ترجمہ: (نابالغ یا معتوہ کا تصرف ) اگر ضرر والا ہو ،جیسے طلاق دینا، غلام آزاد کرنا ، صدقہ کرنا یا قرض دینا تو درست نہیں، اگرچہ ان کے ولی اس کی اجازت دیں ۔
رد المحتار میں ہے:”كذا لا تصح من غيره كأبيه ووصيه والقاضي للضرر،قلت: ومواضع الضرورة مستثناة عن قواعد الشرع“ ترجمہ:اسی طرح ان کے علاوہ کا تصرف بھی درست نہیں جیسے باپ ، اس کا وصی ، قاضی ،ضرر کی وجہ سے، میں کہتا ہوں: اور ضرورت کے مواقع قواعد ِشرع کی وجہ سے مستثنیٰ ہیں۔(الدرالمختار مع رد المحتار،ج6،ص173،مطبوعہ مصر)
ظاہر الروایہ اور صحیح قول یہی ہے کہ والد کو بھی بچے کا مال کسی اور کو قرض دینے یا اپنے لیے لینے کی اجازت نہیں۔ قرض دینے کے متعلق مبسوط للسرخسی میں ہے:” وفی الأب روايتان، وفي الرواية الظاهرة يقول:لا يملك الإقراض؛ لأنه تبرع، وليس للصغير فيه منفعة ظاهرة “ترجمہ: اور والد کے متعلق دو روایتیں ہیں ، ظاہر الروایہ میں فرمایا: والد کو بھی نابالغ کا مال قرض دینے کی اجازت نہیں کہ یہ تبرع ہے اور اس میں نابالغ کا کوئی ظاہر فائدہ نہیں۔ (المبسوط للسرخسی، ج1،ص103،دار المعرفہ،بيروت)
اور قرض لینے کے متعلق بحر الرائق میں لکھا:” وذكر شمس الأئمة فی شرح كتاب الرهن أن للأب أن يستقرض مال ولده لنفسه، وذكر شيخ الإسلام في شرحه أنه ليس له ذلك ۔۔۔ والصحيح أن الأب بمنزلة الوصي لا بمنزلة القاضي“ ترجمہ:شمس الائمہ نے کتاب الرہن کی شرح میں ذکر فرمایا کہ والد کو اپنے لیے اپنے نابالغ بچے کے مال سے قرض لینے کا اختیار ہے، اور شیخ الاسلام نے اپنی شرح میں ذکر کیا کہ اسے یہ اختیار نہیں ۔۔۔اورصحیح یہ ہے کہ باپ وصی کی طرح ہے ،قاضی کی طرح نہیں۔ (البحر الرائق،ج8،ص528، دار الکتاب الاسلامی)
باپ وصی کی طرح ہے قاضی کی طرح نہیں، اس کی وضاحت ’’ قرۃ عین الأخیار لتکملۃ رد المحتار‘‘میں یہ ہے:’’ والصحیح أن الاب کالوصی لا القاضی، ولو أخذہ الوصی قرضاً لنفسہ لا یجوز ویکون دیناً علیہ‘‘ ترجمہ: اور صحیح یہ ہےکہ باپ وصی کی طرح ہے قاضی کی طرح نہیں، اگر وصی اپنے لیے مالِ یتیم قرض لے ،ناجائز ہے اور اس پر یہ دین ہوگا۔ (قرۃ عین الأخیار لتکملۃ رد المحتار،جلد7،صفحہ297،دار الفکر، بیروت)
نیز’’مجمع الضمانات‘‘میں ہے:’’فلو أخذ الوصی مال الیتیم قرضاً لنفسہ لا یجوز ویکون دیناً علیہ، وعن محمد ولیس للوصی أن یستقرض مال الیتیم فی قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ ‘‘ ترجمہ: اگر وصی اپنے لیے مال ِیتیم قرض لے، ناجائز ہے اور اس پر یہ دین ہوگا،اور امام محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق وصی کو یہ حق حاصل نہیں کے یتیم کا مال بطور قرض لے۔(مجمع الضمانات،صفحہ 39، دار الکتب الاسلامی)
بہار شریعت میں ہے:’’باپ یا وصی کو یہ حق حاصل نہیں کہ نابالغ بچہ کا مال قرض کے طور پر دے دیں ۔‘‘(بھار شریعت،جلد2،حصہ12، صفحہ908، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
البتہ اگر حاجت وضرورت ہو،توباپ اپنی نابالغ اولاد کا مال قرض کے طور پر لے سکتا ہے،جیسا کہ اوپر رد المحتار سے مواضع ضرورت کا استثناء گزرا ۔ شمس الائمہ سرخسی مبسوط میں لکھتے ہیں:” وعندنا ليس له في مال ولده ملك ولا حق ملك فهو ضامن له إذا أتلفه، وإن ثبت له شرعا حق التناول منه بالمعروف عند الحاجة فذلك لا ينفی الضمان عند عدم الحاجة كالمرأة فإن لها أن تنفق من مال زوجها بالمعروف فإن أتلفت شيئا من ماله بدون الحاجة كانت ضامنة فالأب كذلك“ ترجمہ: ہمارے نزدیک والد کو اپنے بچے کے مال میں نہ ملک حاصل ہے، نہ حق ِ ملک لہٰذا اگر وہ اسے تلف کردے تو ضامن ہوگا، اگر چہ حاجت کے وقت اسے عرف کے مطابق اپنے بچے کا مال استعمال کرنے کا شرعاً حق حاصل ہے، لیکن یہ حاجت نہ ہونے کی صورت میں ضمان کے منافی نہیں ، جیسے بیوی کو اپنے شوہر کے مال سے عرف کے مطابق خرچ کرنے کی اجازت ہے اور اگر اس کے مال میں سے کوئی شے بغیر حاجت خرچ کرتی ہے تو ضامن ہوگی اسی طرح باپ کا بھی حکم ہے۔(المبسوط للسرخسی،ج30،ص143،دار المعرفہ ،بيروت)
امام اہل سنت رحمہ اللہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں:”أقول: یعنی بحالت فقر بلاقیمت اور بحالتِ احتیاج حاضر مثلًا سفر میں ہوں اور مال گھر میں بوعدہ قیمت تصرف کرسکتے ہیں ۔۔۔جامع احکام الصغار پھر حموی اشباہ اور تاتارخانیہ پھر ردالمحتار میں ہے:”اذا احتاج الا ب الی مال ولدہ فان کانا فی المصر واحتاج لفقرہ اکل بغیر شئ وان کان فی المفازۃ واحتاج الیہ لانعدام الطعام معہ فلہ الاکل بالقیمۃ“ (ترجمہ:جب باپ کو بچّے کے مال کی حاجت ہو اور وہ شہر میں ہو اور فقر کی وجہ سے بچے کا مال کھانے کا محتاج ہو، تو کھالے اور اس پر کوئی شے نہیں، اور اگر یہ صورت حال جنگل میں پیش آئے اور باپ کے پاس کھانا موجود نہ ہو اور اس کو کھانے کی ضرورت ہو تو وہ قیمت کے ساتھ کھا سکتا ہے۔)
جامع الفصولین فوائد امام ظہیر الدین سے ہے:”لوکان الاب فی فلاۃولہ مال فاحتاج الی طعام ولدہ اکلہ بقیمۃ لقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الاب احق بمال ولدہ اذا احتاج الیہ بالمعروف والمعروف ان یتناولہ بغیر شیئ لوفقیرا والا فبقیمتہ“(ترجمہ:اگر باپ جنگل میں ہو اور اس کے پاس مال ہو اور پھر اس کو اپنے بیٹے کا مال کھانے کی ضرورت لاحق ہو،تو وہ اس کی قیمت دے کر کھا سکتا ہے، اس لئے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ باپ کو اپنے بیٹے کے مال کا زیادہ حق ہے جبکہ معروف طریقہ پر ہو اور معروف طریقہ یہ ہے کہ اگر محتاج ہو توبغیرعوض ورنہ قیمت کے عوض استعمال کرے۔)‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج2،ص508،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ