مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری
مدنی
فتوی نمبر:Web-1126
تاریخ اجراء: 17جمادی الاول1445 ھ/02دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
قانون یہ ہے کہ جو لوگ اسٹڈی
ویزا کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں ان کو کچھ ماہ اپنا بینک
اکاؤنٹ شو کروانا پڑتا ہے جن لوگوں کے اکاؤنٹ میں زیادہ پیسے نہیں
ہوتے وہ دوسروں سے پیسے لیتے
ہیں جو لوگ ان کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں وہ اس
کے بدلے ان سے پیسے مانگتے ہیں
یعنی پانچ لاکھ دیں گے تو پھر ان سے چھ لاکھ واپس لیں گے
ایسا کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مذکورہ پانچ لاکھ روپے کی حیثیت قرض کی
ہے ،اس قرض کی بنیادپرکچھ بھی اضافہ لینا سودہے اور
سودلینا،دینا ناجائز وگناہ ہے ،لہذا اس طرح کاکوئی سودی
معاملہ ہرگزنہ کریں۔
حدیث پاک میں
ہے:”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
آکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ “اللہ
کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے
والے،اس کے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت
فرمائی ہے۔(الصحیح لمسلم،جلد 2،صفحه
27،مطبوعہ: کراچی)
قرض پر
کسی قسم کا نفع شرط ٹھہرالینا سود اور سخت حرام و گناہ
ہے۔چنانچہ حدیث پاک میں ہے:” کل
قرض جر منفعۃ فھو ربا“ہر قرض جو نفع لائے وہ
سود ہے۔(کنزالعمال،جلد 6، صفحه 99،مطبوعہ ، لاھور)
امامِ اہلسنت شاہ
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”وہ زیادت
کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس کا استحقاق قرار پایا
ہو،سود ہے۔ مثلاً سو(100) روپے قرض
دئیے اور یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100)لے گا تو
یہ پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود،حرام ہے ۔“(فتاوٰی
رضویہ ، جلد 17، صفحہ 326، رضا فاونڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ