Udhar Ki Muddat Barhane Par Izafi Raqam Lena Khula Sood Hai

ادھار کی مدت بڑھانے پر اضافی رقم لینا کھلا سود ہے۔

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ایک گاڑی پندرہ ہزار روپے ماہانہ قسط پر آٹھ لاکھ میں خریدی مگر کچھ ہی مہینوں کے بعد زید نے بائع  ( بیچنے والے ) سے یہ درخواست کی کہ میرے لیے پندرہ ہزار ماہانہ ادا کرنا دشوار ہے۔ اگر تم ماہانہ قسط پندرہ ہزار کے بجائے دس ہزار کر دو تو میرے لیے ادائیگی آسان ہوجائے گی۔ اس سہولت پر میں آٹھ لاکھ کے بجائے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے کی ادا ئیگی کروں گا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ بائع کا اس پیشکش کو قبول کرنا جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بائع ( بیچنے والے ) پر لازم ہے کہ وہ گاڑی کی طے شدہ قیمت آٹھ لاکھ روپے ہی زید سے وصول کرے ، اس سے ایک روپیہ بھی اوپر وصول کرے گا تو یہ مدت کے بڑھ جانے کا عوض ہوگا جو کہ سود ہے اور سود کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ نیز زید پر بھی لازم ہے کہ اس نے بائع کو جو سودی پیشکش کی ہے اس گناہ سے توبہ کرے اور آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لے۔

   سود کی حرمت پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ) ترجمۂ کنزالایمان : ”اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔“ ( پ3 ، البقرۃ : 275 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ بغوی میں ہے : ”ان اهل الجاهلية كان احدهم اذا حل ماله على غريمه فطالبه به فيقول الغريم لصاحب الحق : زدني في الاجل حتى ازيدك في المال ، فيفعلان ذلك و يقولون سواء علينا الزيادة في اول البيع بالربح او عند المحل لاجل التاخير ، فكذبهم الله تعالى فقال : واحل الله البيع وحرم الربا“ یعنی زمانہ جاہلیت میں جب کسی شخص کی دین کی مدت پوری ہوجاتی تو وہ اپنے مدیون سے دَین کا مطالبہ کرتا تو مدیون اپنےدائن سے کہتا کہ میرے لیے مدت میں اضافہ کردو تو میں تمہیں مال بڑھا کر واپس کروں گا۔ پس وہ دونوں اسی طرح کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر برابر ہے کہ یہ زیادتی سودے کے شروع ہی میں نفع کے ساتھ طے ہو یا پھر بعد میں اضافہ کیا جائے۔ اس پر اللہ عزوجل نے ان کی تکذیب فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ”اللہ نے حلال کی بیع اور حرام کیا سُود۔“ ( تفسير بغوی ، 1 / 381 ، 382 )

   ادھار سودے میں مدت بڑھانے کے عوض ملنے والا اضافہ سود ہے۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوی میں ہے : ”ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا“ یعنی ایک شخص نے ادھار سامان بیچا اور جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی تو دائن نے مدیون سے دَین کا مطالبہ کیا مدیون نے دائن سے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراہم بڑھا دوں گا یہ زیادتی سود ہے۔( النتف فی الفتاوی ، ص485 )

   بہارِ شریعت میں ہے : ”عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اورایک طرف زیادتی ہوکہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔“ ( بہارِ شریعت ، 2 / 768 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم