فتوی نمبر: Fsd-9178
تاریخ اجراء: 20 جماد ی الاولی 1446 ھ/ 23 نومبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ بہت سے لوگ بینکوں یا دیگر سودی اداروں سے سودی قرض لیتے ہیں اور ادارہ ان سے اتنے پیسوں کے بدلے بطورِ گروی جائیداد کے کاغذات لے کر رکھ لیتا ہے ، لیکن وہ جائیداد واقعی اتنی مالیت کی ہے یا نہیں ؟ اس کی تفتیش کرنا ضروری ہوتا ہے ، بعض بینک یا ادارے یہ کام خود کرلیتے ہیں اور بہت سے ادارے یہ کام چھان بین (Investigation) کرنے والی مختلف کمپنیوں سے کرواتے ہیں ، یہ کمپنیاں تفتیش کے بعد بتاتی ہیں کہ یہ پراپرٹی کتنی مالیت کی ہے ، ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے ، اس کے علاوہ کسی طرح بھی بینک یا سودی معاملات میں براہِ راست کوئی دخل نہیں ہوتا ، سوال یہ ہے کہ سودی قرض دینے والے ادارے کو اس معاملے پر اپنی سروس دینا کیسا ہے ؟ اورکیا کمپنی اس طرح سودی ادارے کے کام پر تعاون کی وجہ سے گنہگار ہوگی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سود کا لین دین کرنا ، اس پر گواہ بننا ، اس کا حساب رکھنا ، اس کو لکھنا ، سخت ناجائز وحرام اور لعنت کا باعث ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے ، لیکن یہ وبال انہی پر ہے ،جو سود کے لین دین اور اس کے براہِ راست متعلقہ افعال میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بیان کردہ صورت میں چھان بین (Investigation)کرنے والی جو کمپنی اس کام میں یوں شریک نہیں ہوتی، صر ف پراپرٹی کی مالیت کی چھان بین کرتی اور اپنی سروس کے بدلے اجرت لیتی ہے ، تواس کا اپنی سروس دینا اور اس پر اجرت لینا ، شرعاً جائز ہے ۔
البتہ اگر کوئی کمپنی کسی بھی طرح سود کے لین دین اور اس کے براہِ راست متعلقہ افعال میں تعاون کرے یا اس گناہ پر تعاون کی نیت سے اپنی سروس دے ،تو گناہ کے کام پر معاون و مددگار بننے کے سبب یہ عمل اور اس کی اجرت لینا ، ناجائز و گناہ ہوگا ۔
سود کی حرمت کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ترجمہ کنز العرفان :’’اللہ نے خریدو فروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا ۔‘‘(القرآن الکریم ، سورۃالبقر ہ ،آیت275 )
سودی لین دین میں براہِ راست شریک افراد کے متعلق صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے:’’ عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ ‘‘ ترجمہ : حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ (صحیح المسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی)
کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہیں ہوگا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔‘‘(پارہ22،سورۃ فاطر،آیت 18)
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں ہے :”آیت کے اس حصے کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک جان پر اُسی کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اُس نے کیے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عِوَض نہ پکڑی جائے گی۔“(صراط الجنان ، جلد 8 ،صفحہ 190 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
کسی گناہ کے کام پر معاونت نہ پائی جائے، تو اپنی سروس دیناجائز ہے، جیساکہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:” اور اگر کسی امر جائز کی نوکری ہے ،تو جائز ہے، تنخواہ میں وہ روپیہ کہ بعینہٖ سود میں آیا ہو نہ لےاورمخلوط ونامعلوم ہو تو لے سکتاہے۔ “ (فتاوٰی رضویہ ، جلد 19، صفحہ 522، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وقار الفتاوٰی میں ہے: ”اگر ملازم کو سود لکھنا پڑتا ہے، تو اس کی ملازمت بھی نا جائز اور تنخواہ لینا بھی نا جائز، احادیث میں سود کا کاغذ لکھنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے اور جن ملازمین کو سود لکھنا نہیں پڑتا ، مثلاً دربان اور ڈرائیور وغیرہ تو ان کی ملازمت بھی جائز ہے اور تنخواہ بھی۔ “(وقار الفتاوی،جلد3،صفحہ325، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)
گناہ کے کام پر تعاون کی ممانعت کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو ۔(پارہ 6،سورۃ المائدہ،آیت 2)
درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:”والأصل أن الاجارة لا تجوز عندنا على...المعاصي“ ترجمہ : اصل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک گناہوں پر اجارہ جائز نہیں۔(درر الحکام شرح غر ر الاحکام،کتاب الاجارۃ،ج 2،ص 233، مطبوعہ دار إحياء الكتب العربيہ)
امام اہل سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :”اس دکان کی ملازمت اگرسود کی تحصیل وصول یا اس کا تقاضا کرنا یا اس کا حساب لکھنا ، یا کسی اور فعلِ ناجائز کی ہے ، تو ناجائز ہے۔“(فتاوٰی رضویہ ، جلد 19، صفحہ 522، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ