Rehen Par Li Hui Cheez Malik Ki Ijazat Se Istemal Karna

رہن پر لی ہوئی چیز مالک کی اجازت سے استعمال کرنا

مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1424

تاریخ اجراء: 11رجب المرجب1445 ھ/23جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   رہن پر دی ہوئی چیز کو استعمال کرنا کیسا ؟اگر اس چیز کا مالک استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو شرعاً کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی مسلمان کو قرض دے کر اس سے کوئی چیز مثلاً مکان وغیرہ ، استعمال کرنے کی شرط کے ساتھ گروی لینا ہرگز جائز نہیں، مقروض اسے استعمال کرنے کی اجازت دے دےتب بھی قرض کی بنیاد پر اسے استعمال کرنا جائز نہیں  بلکہ  یہ طریقہ سودی طریقہ ہے اور ناجائزوحرام ہے، کیونکہ اس میں قرض دے کراس سےمشروط  طور  پر نفع اٹھانا پایا جاتا ہےاور قرض پرنفع لینا سود ہے۔

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”رہن میں کسی طرح کے نفع کی شرط بلاشبہ حرام اور خالص سود ہے بلکہ اِن دیار میں مرتہن کا مرہون سے انتفاع بلاشرط بھی حقیقۃً بحکمِ عرف انتفاع بالشرط ربائے محض ہے۔

   قال الشامی: قال ط:قلت:والغالب من احوال الناس انھم انما یریدون عند الدفع الانتفاع ولو لاہ لما اعطاہ الدراھم وھذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کالمشروط وھو مما یعین المنع۔ شامی نے کہا کہ طحطاوی نے فرمایا:میں کہتا ہوں غالب حال لوگوں کا یہ ہے کہ وہ رہن سے نفع کا ارادہ رکھتے ہیں اگر یہ توقع نہ ہو تو قرض ہی نہ دیں اور یہ بمنزلہ شرط کے ہے کیونکہ معروف مشروط کے حکم میں ہوتا ہے۔ یہ بات عدمِ جواز کو متعین کرتی ہے۔ (ت)“(فتاویٰ رضویہ ،جلد25۔صفحہ 57،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم