Qarz Wapas Karte Waqt Apni Khushi Se Ziyada Dena

قرض کی واپسی کے وقت اپنی خوشی سے زیادہ دینا

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر: WAT-2454

تاریخ اجراء: 29رجب ا لمرجب1445 ھ/10فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر ہم نے کسی کو قرض دیا ،اور اس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کیا لیکن وہ اپنی خوشی سے زیادہ رقم واپس کرےتوکیا یہ جائز ہے مثلا زید نے بکر کو 1000 روپے دئیے اور بکر نے زید کے مطالبے کے بغیر اپنی خوشی سے 1100 روپے لوٹائےتو کیا یہ سود ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر قرض دیتےوقت صراحتا یا عرفا زیادہ دینا طے نہیں ہے، بلکہ یہی طے ہے کہ جتنا قرض دیا ہے، اتناہی واپس کرنا ہے ، اس صورت میں اگر قرضدار اپنی مرضی اور خوشی سے قرض کی رقم سے زیادہ واپس کرے تو یہ سود نہیں ہے،بلکہ یہ اچھا ہے ۔

   بدائع الصنائع میں ہے:” أما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي عليه السلام: «خيار الناس أحسنهم قضاء» ترجمہ:بہر حال جب قرض کی واپسی پر زیادتی مشروط نہ ہو لیکن قرضدار اس سے بہتر دے تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ سود اس زیادتی کا نام ہے جو قرض دیتے وقت مشروط ہو ،اوریہاں مشروط نہیں ہے بلکہ یہ تو اچھے طور پر  قرض کی ادائیگی کے باب سے اور یہ  مستحب امر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اچھے طریقے سے قرض ادا کرے ۔(بدائع الصنائع، جلد7،صفحہ395،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم