Qarz Wapas Dene Mein Taal Matol Karna ?

قرض واپس دینے میں ٹال مٹول کرنا

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1226

تاریخ اجراء:       06ربیع الثانی1444 ھ/02نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کوئی شخص قرض یہ کہہ کر لےکہ ایک ہفتے میں لوٹا دوں گا اور واپس نہ کرے ، پھر دو ہفتے ، پھر مہینہ ، پھر دو مہینے کا وقت لے اور بار بار یونہی کرتے کرتے ایک سال سے اوپر کا وقت گزار دے ، تو کیا یہ امانت میں خیانت کہلائے گا ؟ میں نے کسی سے سنا ہے کہ قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر قرض لوٹانے میں بہت زیادہ تاخیر کرنا امانت میں خیانت کرنے میں آتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرض امانت نہیں ہوتا ، امانت کے احکام جدا ہوتے ہیں ، لہٰذا قرض لوٹانے میں تاخیر کرنے کو امانت میں خیانت نہیں کہہ سکتے ۔ البتہ جس طرح امانت میں خیانت کرنا ، ناجائز و گناہ ہے ، یونہی قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر اس کی ادائیگی میں بلا وجہ ٹال مٹول اور دیر کرنا بھی ناجائز و گناہ ہے اور اسے حدیثِ پاک میں ظلم قرار دیا گیا ہے  ۔اوریہ خیال رہے کہ اگرقرض اداکیے بغیر مرگیااورقیامت میں اس حال میں آیاکہ لوگوں کااس کے ذمہ قرض ہے توپھرتواس کی نیکیاں ان کے مطالبے میں دی جائیں گی ۔اوراس کے لیے علمائے کرام نے فرمایاکہ :تین پیسے کے بدلے سات سو نمازیں باجماعت  دی جائیں گی ۔اورجب نیکیاں باقی نہ رہیں گی توان کے گناہ اس کے سرپرڈال کراسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔العیاذباللہ تعالی ۔ 

   چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”(قرض لوٹانے میں لوٹانے کی طاقت رکھنے والے) صاحبِ استطاعت کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔(صحیح البخاری،کتاب فی الاستقراض ،2/109، حدیث2400 ، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اسی طرح کی صورت کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے "اشباہ والنظائرمیں ہے "خلف الوعدحرام"۔۔۔۔ صورت مستفسرہ میں زیدفاسق وفاجر، مرتکب کبائر، ظالم، کذّاب، مستحق عذاب ہے۔ اس سے زیادہ اورکیا القاب اپنے لئے چاہتاہے، اگراس حالت میں مرگیا اوردین لوگوں کا اس پرباقی رہا اس کی نیکیاں ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی اور کیونکردی جائیں گی تقریباً تین پیسہ دین کے عوض سات سو نمازیں باجماعت کما فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار والعیاذباﷲ العزیز الغفار(جیساکہ درمختار وغیرہ معتمد کتب میں ہے۔ اﷲ عزیز غفار  کی پناہ۔ت) جب اس کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی ان کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں گے ویلقی فی النّار اور آگ میں پھینک دیاجائے گا، یہ حکم عدل ہے، اور اﷲ تعالٰی حقوق العباد معاف نہیں کرتا جب تک بندے خود معاف نہ کریں" (فتاوی رضویہ،ج25،ص69، رضا فاونڈیشن ،لاہور)

   ہاں  اگر قرض لینے والا واقعۃمجبور اور تنگدست ہو اور وہ قرض کی واپسی میں خوہ مخواہ ٹال مٹول نہ کر رہا ہو ، تو اس صورت میں قرض دینے والے پر واجب ہے کہ اسے مہلت دے اور چاہے تو قرض معاف کر دے ۔ قرض دار کو مہلت دینے اور قرض واپس مانگنے میں نرمی کرنے کے قرآن و حدیث میں  بہت فضائل بیان ہوئے  ہیں۔

   چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: ”اور اگر قرضدار تنگی والا ہے ، تو اسے مہلت دو ، آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلاہے ، اگر جانو ۔“

   اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے : ”قرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو ، تو اس کو مہلت دینا یا قرض کا جزو یا کل معاف کر دینا سببِ اجرِ عظیم ہے۔مسلم شریف کی حدیث ہے ، سیِّدِعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرضہ معاف کیا ، اللہ پاک اس کو اپنا سایۂ رحمت عطا فرمائے گا ، جس روز اس کے سایہ کے سِوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (القرآن و تفسیر خزائن العرفان ، پارہ 03، سورۃ البقرۃ ، آیت280)

   حدیث شریف میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جسے یہ پسند ہو کہ اللہ پاک اسے قیامت کے دن غم سے بچائے، تو اُسے چاہیے کہ تنگدست کو مہلت دے یا اس کے اُوپر سے بوجھ اُتار دے۔“ (یعنی قرض معاف کر دے۔)(صحیح مسلم ،کتاب المساقاة،باب فضل اِنظار المعسر،ص845،حدیث1563، دار ابن حزم ، بیروت)

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ایک شخص لوگو ں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے خادم سے کہہ رکھا تھا کہ جب کسی تنگ دست کے پاس تقاضا کرنے جائے ، تَو ا سے معاف کر دے ، ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک ہمیں معاف کر دے ۔ جب وہ  اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوا ، تو اللہ پاک نے اسے معاف فرما دیا ۔“(صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب من انظر معسرا، 2/12، حدیث2078، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس کا دوسرے پر حق ہو اور وہ (یعنی دوسرا شخص اس کے حق کو) ادا کرنے میں تاخیر کرے ، تو (صاحبِ حق) ہر روز اُتنا مال صدقہ کر دینے کا ثواب پائے گا۔“(المسند للامام احمد ،حدیث عمران بن حصین، ج7،ص224،الحدیث19997 ، دار الفکر، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے " اور اگر مدیون نادارہے جب تو اسے مہلت دینا فرض ہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ پہنچے اور جو دے سکتاہے اور بلاوجہ لیت ولعل کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع وملامت جائز۔"                                (فتاوی رضویہ،ج23،ص586، رضا فاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم