مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-2674
تاریخ اجراء: 07ربیع الاول 1446ھ/12ستمبر2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ايك شخص كو پیسوں کی ضرورت تھی ، لیکن اسے کہیں سے قرض مل نہیں رہا تھا ؛میرے ایک جاننےوالے سے بات ہوئی ہے ، تو وہ میری ضمانت پر قرض دے گا کہ اگر مقروض نے پیسے نہیں دیے تو پھر قرض خواہ کو میں رقم ادا کروں گا ۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس قرض لینے والے شخص کی طرف سے ضمانت دوں گا تو کیا اس ضمانت دینے پر میں مقروض سے اجرت لے سکتا ہوں کہ میری ضمانت پر اسے قرض مل رہا ہے ، اس پر کچھ اجرت طے کر کے لوں، کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ؟سائل: سجاد علی (صدر ، کراچی )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ نے جس کا ضامن بن کر اسے قرض دلوانا ہے ، اس سے ضمانت کے عوض اجرت وغیرہ کچھ بھی نہیں لے سکتے ، شرعاً اس طرح کرنا ، ناجائز و گناہ ہے ۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ کسی شخص کے ذمے لازم ہونے والے مطالبے کو اپنے ذمے بھی لازم کر لینا، کفالت/ ضمانت کہلاتا ہے۔ دوسرے کا مطالبہ اپنے ذمے لینے والے شخص کو ’’کفیل/ ضامن‘‘ کہاجاتا ہے۔ بنیادی طور پر کفالت /ضمانت ایک عقدِ تبرع یعنی دوسرے کے ساتھ محض خیر خواہی وبھلائی کرنے والا معاملہ ہے اور اگر اس کے عوض اجرت لی جائے ، تو پھر جس کی طرف سے ضمانت دی جارہی ہے ، اس کے ساتھ خیر خواہی کرنے والا پہلو نہیں رہے گا ، پھر تو اپنا نفع حاصل کرنا ہوجائے گا ، جبکہ یہ شریعت کا مقصد ہی نہیں ہے ، لہٰذا کسی کی طرف سے کفیل / ضامن بننے کی اجرت کے طور پر عوض نہیں لے سکتے ، یہاں تک کہ اگر کسی نے اس ضمانت کے عوض اجرت وغیرہ عوض لینے کی شرط لگائی ، تو یہ شرط باطل ہے اور کفالت /ضمانت درست ہوجائے گی اور ضامن کو کچھ بھی نہیں ملے ہوگا ۔
کفالت کی تعریف (Definition)سے متعلق در مختار میں ہے:’’ھی ضم ذمۃ الکفیل الی ذمۃ الاصیل فی المطالبۃ مطلقاً بنفس او بدین او عین کالمغصوب ونحوہ‘‘ ترجمہ: کفیل کے ذمہ کو اصیل کے ذمہ کے ساتھ مطالبے میں ملا دینا، خواہ وہ مطالبہ نفس کا ہو یا دَین یا عین مثلاً مغصوبہ چیز یا اس کی مثل کا۔(الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الکفالۃ، جلد 7، صفحہ 589، مطبوعہ کوئٹہ)
کفالت کی بنیادی طور پہ دو قسمیں ہیں، چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’الکفالۃ ضربان: کفالۃ بالنفس وکفالۃ بالمال، فالکفالۃ بالنفس جائزۃ والمضمون بھا احضار المکفول بہ۔۔۔ واما الکفالۃ بالمال فجائزۃ معلوماً کان المکفول بہ او مجھولا ‘‘ ترجمہ: کفالت کی دو قسمیں ہیں: کفالت بالنفس اور کفالت بالمال، کفالت بالنفس درست ہے اور اس میں مکفول بہ کو حاضر کرنے پر ضمانت دی جاتی ہےاور کفالت بالمال بھی جائز ہے، خواہ مال کی مقدار معلوم ہو یا مجہول ۔(ھدایہ، کتاب الکفالۃ، جلد 3، صفحہ 118 تا 123، مطبوعہ لاھور)
اور کفالت کے عقدِ تبرع ہونے کے بارے میں بدائع الصنائع میں ہے:” (منها) العقل ومنها البلوغ وإنهما من شرائط الانعقاد لهذا التصرف فلا تنعقد كفالة الصبي والمجنون لأنها عقد تبرع فلا تنعقد ممن ليس من أهل التبرع “ ترجمہ: کفالت کی شرائط میں سے ہے کفیل کا عاقل بالغ ہونا ہے اور یہ عقدِ کفالت کے منعقد ہونے کے لیے شرط ہیں ، لہٰذا نابالغ بچے اور مجنون کی کفالت منعقد نہیں ہوگی ، کیونکہ کفالت عقدِ تبرع ہے ، تو ایسے شخص کی طرف سے منعقد نہیں ہوسکتی ، جو تبرع کا اہل نہیں ہے ۔(بدائع الصنائع ، کتاب الکفالۃ ، فصل فی شرائط الکفالۃ ، جلد 6 ، صفحہ 5 ، مطبوعہ بیروت )
مزید کفالت کے بغیر عوض ہونے سے متعلق الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:” (ولا تصح إلا ممن يملك التبرع) لأنه التزام بغير عوض فكان تبرعا “ ترجمہ: کفالت صحیح نہیں ہوتی ، مگر اس شخص کی طرف سے جو تبرع کا مالک ہو ، کیونکہ کفالت میں بغیر عوض کے دوسرے کا مطالبہ اپنے ذمہ لینا ہوتا ہے ، لہٰذا یہ عقدِ تبرع ہے ۔(الاختیار لتعلیل المختار ، کتاب الکفالۃ ، جلد 2 ، صفحہ 167 ، مطبوعہ بیروت )
فتاویٰ خیریہ میں سوال ہوا کہ” ایک شخص نے دوسرے کے خلاف دعویٰ کیا کہ اس نے مجھ سے کفالت پر اجارہ کیا ہے اور اس پر گواہ بھی پیش کیے ، تو یہ دعویٰ درست ہے ؟ اس کے جواب میں فرمایا:” لاتصح الدعویٰ ولا الشھادۃ المذکورۃ لعدم صحۃ الاستئجار علی الکفالۃ اذ ھی تملیک نفع بعوض و الکفالۃ ضم ذمۃ الی ذمۃ واذا فسدت الدعویٰ فسدت الشھادۃ “ ترجمہ: یہ دعویٰ اور مذکورہ شہادت درست نہیں ہے ، کیونکہ کفالت پر اجارہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ یہ معاوضہ لے کر نفع کا مالک بنارہا ہے ، جبکہ کفالت میں(بغیر عوض) دوسرے کے ذمہ کو اپنے ذمہ کے ساتھ ملا لینا ہوتا ہے اور جب دعویٰ فاسد ہے ، تو شہادت بھی فاسد ہوگئی ۔(الفتاویٰ الخیریہ ، کتاب الاجارہ ، جلد 2 ، صفحہ 138 ، مطبوعہ مصر )
ایسا عقد جس میں دوسرے کو بغیر عوض کے کسی چیز کا مالک بنایا جا رہا ہو ، اس میں لگائی گئی شرطِ فاسد ، باطل ہو جاتی اور عقد جائز رہتا ہے ۔ چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے : ”ما کان مبادلۃ مال بغیر مال او کان من التبرعات لا یبطل بالشروط الفاسدۃ ۔۔۔ فیبطل الشرط و یصح تصرفہ فیہ ملخصا “ ترجمہ : ایسا عقد جس میں مال کا تبادلہ غیرِ مال سے ہو یا جو تبرعات میں سے ہو ، وہ فاسد شرطوں سے فاسد نہیں ہوتا ، تو شرط باطل ہو جاتی اور اس عقد میں تصرف درست ہوتا ہے ۔(تبیین الحقائق ، کتاب البیوع ، باب المتفرقات ، جلد 4 ، صفحہ 542، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
کفالت کے بارے میں کنز الدقائق میں ہے:” (وما لا يبطل بالشرط الفاسد القرض، والهبة، والشركة، والمضاربة، والقضاء ، والكفالة، والحوالة، والوكالة “ ترجمہ: جو چیزیں شرطِ فاسد سے باطل نہیں ہوتیں ، وہ یہ ہیں: قرض ، ہبہ ، شرکت ، مضاربت ، قضا ، کفالت ، حوالہ اور وکالت ۔(کنز الدقائق مع تبیین الحقائق ، کتاب البیوع ، جلد 4 ، صفحہ 545 ، مطبوعہ بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ