Qarz Par Profit Lena Kaisa Hai ?

قرض پر مشروط نفع کی پیشکش قبول کرنا کیسا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12635

تاریخ اجراء: 04جمادی الاخری1444 ھ/28دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے گندم کاشت کردی ہے اب اس کے پاس کھاد لینے کے لئے پیسے نہیں ہیں وہ مجھ سے کہتا ہے کہ ایک لاکھ روپیہ مجھے دے دو ، میں ان سے کھاد خرید کر اپنی ضرورت پوری کروں گا۔ پھر جب میری فصل کی کٹائی ہوجائے گی تو آپ مجھ سےاپنے ایک لاکھ روپیہ واپس لے لینا اور اسکے علاوہ چاہو تو گندم لے لینا یا چاہو تو منافع کی مد میں مجھ سے پیسے لے لینا۔تو کیا میں اُس شخص سے اب گندم یا منافع طے کرکے کٹائی کے بعد اپنی اصل رقم کے علاوہ گندم یا کوئی اور منافع طے کرکے لے سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ جتنا قرض آپ دیں گے ، اتنا ہی واپس لیں کہ قرض پر مشروط نفع سود ہے ۔ اب نفع خواہ پیسوں کی صورت میں ہو یا گندم کی صورت میں ہو،  بہر صورت سود ہے اور  سود کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ نیز اس شخص  پر بھی لازم ہے کہ اس نےآپ  کو جو سودی پیشکش کی ہے اس گناہ سے توبہ کرے اور آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لے۔

   یہاں جائز طریقہ اپنا کر بھی اپنا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ کسان کوجو کھاد چاہیے تو پیسے دینے والے کو کہے  کہ وہ خرید کر اپنا قبضہ کرے اور پھر اپنا نفع رکھ کر وہ کھاد کو کسان کو بیچ دے مثلا ایک لاکھ روپے کی کھاد اس نےخریدی ۔ مال دکان سے اٹھا کر اپنے قبضے میں لیا پھر ایک لاکھ پانچ ہزار کا کسان کو ادھار میں بیچ دیا تو اب یہ نفع تجارت کے بدلے میں ہےجو کہ  جائز صورت ہے ۔

   سود کی حرمت  اور تجارت کی حلت پر  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”﴿ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-﴾“ترجمہ کنزالایمان :”اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔(القرآن الکریم،پارہ03،سورۃ البقرۃ،آیت:275)

   حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله ‘‘ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے  والے، سود کھلانے  والے پر لعنت فرمائی۔

(صحیح مسلم، کتاب البیوع،جلد3، صفحہ 1219،حدیث:1597، دار احیاء التراث العربی بیروت)

   جس قرض پر نفع ملے ، وہ سود ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہٖ  وسلم نے ارشاد فرمایا ؛ ”کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا “ ترجمہ :ہر  وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب البیوع ،من کرہ کل قرض جر منفعۃ،ج04،ص327،مکتبۃ الرشد )

   قرض کی تعریف کے متعلق در مختار میں ہے :”ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه “ ترجمہ: جو  مثلی چیز تو اس لیے دے کہ اس کا تقاضا کرے گا  (وہ قرض ہے)(درمختار مع رد المحتار،ج 07، ص 406، کوئٹہ)

   دس روپے قرض دے کر بارہ روپے واپس لینے کے متعلق سوال ہوا تو اس کے متعلق امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں :” اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی ، تو بے شک سود و حرامِ قطعی و گناہِ کبیرہ ہے ۔ ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کے مثل ملعون ہے اگر بے ضرورت شرعیہ قرض لیا ہو۔ “( فتاوی رضویہ ، ج 17 ، ص 278 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’بہر حال یہاں نہیں مگر صورتِ قرض، اور اس پر نفع مقرر کیا گیا‘یہی سود ہے اور یہی جاہلیت میں تھا۔‘‘(فتاوی رضویہ ، ج17، ص373، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم