مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:
Kan-16333
تاریخ اجراء: 11جمادی الاخریٰ1443 ھ/09 دسمبر 2021 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں
کہ زید نے بکر سے چند سال قبل دو لاکھ پاکستانی
روپے ادھار لیے تھے ۔ادھار دیتے وقت فریقین کےدرمیان
کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ قرض کی ادائیگی کس ذریعے
سے ہوگی ۔اب جب رقم واپس کرنے کا وقت آیا ،تو بکر کا کہنا ہے کہ
اب چونکہ ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے ہیں، تو میں ڈالر کے حساب سے رقم
لوں گا ۔معلوم یہ کرنا ہے کہ کیابکر کا یہ کہنا شرعا درست
ہےاور کیا زید کو اب رقم کی
ادائیگی ڈالر کو مد نظر رکھ کر کرنا ہو گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
شرعی
اصول یہ ہے کہ صرف مثلی اشیاء(یعنی وہ اشیاء
کہ جن کی مثل بازار میں دستیاب ہوتی ہے)کو قرض دیا
جاسکتا ہے اور قرض واپس کرتے ہوئے لی گئی چیز کا مثل ہی
ادا کیا جائے گا، اس کی قیمت کے بڑھنے یا کم ہونے کا کوئی
اعتبار نہیں، لہذا پوچھی گئی
صورت میں چونکہ بکر نے زید کو دو لاکھ پاکستانی روپے قرض دیے
تھے، جومثلی اشیاء میں سے تھےاس لیے زیدپر فقط دو
لاکھ پاکستانی روپے ہی ادا کرنالازم ہیں اور بکر کا ڈالر کے ذریعے یا ڈالر کی قیمت کے مطابق ادائیگی
کا مطالبہ شرعاجائزنہیں ۔
بالفرض وہ یوں طے کربھی
لیتے کہ دو لاکھ پاکستانی روپے قرض کی واپسی
ڈالر یا ڈالر کی قیمت
کے ذریعےسے ہوگی ، تو بھی یہ جائز نہ ہوتا اور یہ
شرط باطل ہوتی اور قرض لینے
والے پر فقط دو لاکھ پاکستانی روپے ہی واپس ادا کرنا لاز م ہوتے ۔
فتاوی عالمگیری
میں ہے :’’ویجوز القرض فیما ھو من ذوات الامثال
کالمکیل والموزون والعددی المتقارب کالبیض ولایجوز فیما
لیس من ذوات الامثال‘‘ یعنی مثلی
اشیاء میں قرض جائز ہے ،مثلا: مکیلی موزونی اور (ایسی
)عددی چیز جس (کے افراد ) میں زیادہ تفاوت نہ ہوجیسے
انڈہ اورجو چیزیں مثلی
نہیں انہیں قرض دینا جائز نہیں ۔(فتاو
ی عالمگیری،جلد3،صفحہ201،مطبوعہ کوئٹہ)
تنقیح فتاوی حامدیہ میں ہے:’’رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا
سعرها
فهل عليه ردمثلها؟ نعم ولا ينظر الى غلاء الدراهم
ورخصها ‘‘ یعنی کسی
شخص نے دوسرے سے دراہم کی کچھ مقدار قرض لی اور اس میں تصرف کیا
،پھر ان دراہم کی قیمت کم ہوگئی ، تو کیا اس پر اس کا مثل
لوٹانا لازم ہے ؟ جی ہاں (مثل کا لوٹانا ہی لازم ہے ) اور دراہم کے
مہنگے اور سستے ہونے کا اعتبار نہیں ۔(تنقیح
فتاوی حامدیہ، جلد:1، صفحہ :294،مطبوعہ
کوئٹہ)
بہار
شریعت میں ہے :’’ قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی
ہے، اُس کی مثل ادا کی جائے۔‘‘(بھار شریعت
،جلد 2،صفحہ756،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ،کراچی
)
اسی
میں ہے :’’ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں،
مثلاً: دس سیر گیہوں قرض لیے تھے ،اُن کی قیمت ایک
روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ
ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا، وہی دس سیر گیہوں
دینے ہونگے۔ ‘‘(بھار شریعت ،جلد2،صفحہ757،مطبوعہ
مکتبۃالمدینہ،کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ