Qarz Li Gai Raqam Ko Shart Ke Baghair Ziyada Wapas Karna

قرض لی گئی رقم کو بغیر شرط کے زیادہ لوٹانا

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1403

تاریخ اجراء:       24رجب المرجب1444 ھ/16فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی  نے 20 ہزار روپے کسی جاننے والے سے ادھار لئے جب اس نے واپس کئے تو 21 ہزار دئیے اپنی مرضی اور خوشی سے شکریے کے طور پر ایک ہزار زیادہ دئیے کہ مشکل وقت میں آپ نے ہمیں قرض دیا۔ پہلے سے طے نہ تھا نہ قرض دینے والے کو  پتہ تھا کہ مجھے کچھ زیادہ  رقم ملے گی اور  قرض لینے والے کی بھی قرض لیتے وقت کوئی نیت نہ تھی کہ واپس زیادہ دوں گا ، اب اس میں شرعی حکم کیا ہے کیا وہ اوپر والا ایک ہزار روپیہ رکھنا جائز ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر قرض لیتے وقت صراحتایادلالتا(مثلاعادۃ معروف ہونا وغیرہ)کسی طرح زائدرقم لینا،دینامشروط نہیں تھا، بعد میں قرض کی واپسی کرتے وقت قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے،بغیرکسی جبرواکراہ کے ،ایک ہزارروپے زائد دئیے تویہ دیناشرعادرست ہے اورلینے والے کے لیے لینابھی شرعادرست ہے ۔

نوٹ:اس میں ایک بات  کالحاظ ضروری ہے کہ ایک ہزارجوزائددیاجائے تووہ علیحدہ سے دیاجائے، 20 ہزارکے ساتھ مخلوط (مکس)ومشاع(بغیرجداکیےاکٹھا) نہ دیاجائے کہ مخلوط ومشاع دینے کی صورت میں ہبہ درست نہیں ہوگا اورلینے والامالک نہیں ہوگا ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” جبکہ زیادہ دینا نہ لفظاً موعود نہ عادۃ معہود، تو معنی ربا یقیناً مفقود خصوصاً جبکہ خود لفظوں  میں  نفی ربا کا ذکر موجود، بلکہ یہ صرف ایک نوع احسان و کرم و مروت ہے اور بیشک مستحب وثابت بہ سنت، لحدیث صحیح البخاری وصحیح مسلم وعن جابر بن عبدﷲانصاری رضی ﷲتعالٰی عنہما قال:" اتیت النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکان لی علیہ دین فقضانی وزادنی (ملخصا) “ترجمہ:صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث کی وجہ سے کہ سیدنا حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری رضی اللہ تعالٰی  عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں  کہ میں  حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضر ہوا میراآپ پر کچھ قرض تھا آپ نے وہ ادا فرمادیا اور کچھ زیادہ بھی مجھے عنایت فرمایا۔۔۔۔

   مگر محل اس کا وہاں  ہے کہ یا تو وہ زیادت قابل تقسیم نہ ہو مثلاً ساڑھے نوروپے آتے تھے دس پورے دئیے کہ اب بقدر نصف روپے کی زیادتی ہے اور ایک روپیہ دو پارہ کرنے کے لائق نہیں یا قابل تقسیم ہو تو جدا کرکے دے، مثلاً دس آتے تھے وہ دے کر ایک روپیہ احساناً الگ دیا ان صورتوں  میں  وہ زیادتی بکر کے لئے حلال ہوجائے گی، اور اگر قابل تقسیم تھی اور یوں ہی مخلوط و مشاع دی مثلاً دس آتے تھے گیارہ یکمشت دئیے دس آتے میں  اور ایک احساناً تو نہ ہبہ صحیح ہوگا نہ بکر اس زیادت کامالک۔عالمگیری میں  ہے ”رجل دفع الی رجل تسعۃ دراہم وقال ثلثۃ قضاء من حقک وثلثۃ ہبۃ لک وثلثۃ صدقۃ فضاع الکل یضمن ثلثۃ الہبۃ لانھا ہبۃ فاسدۃ ولایضمن ثلثۃ الصدقۃ لان صدقۃ المشاع جائزۃ الا فی روایۃ کذا فی محیط السرخسی “(ترجمہ:ایک مرد نے دوسرے کو نودرہم دئیے اور کہا تین تیرے حق کی ادائیگی ہیں  تین تیرے لئے ہبہ اور تین صدقہ ہیں ، پھر سب ضائع ہوگئے تو ہبہ کے تین درہموں  کا وہ ضامن ہوگا کیونکہ یہ فاسد ہبہ ہے اور صدقہ کے تین درہموں  کا ضامن نہیں ہوگا کیونکہ صدقہ مشاع جائز ہے سوائے ایک روایت کے، محیط سرخسی میں  یونہی ہے)"(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 320تا 322، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم