Qarz Ki Adaigi Mein Takheer Karna Kaisa Hai ?

قرض کی ادائیگی  میں تاخیرکرنا کیسا ہے ؟

مجیب: ابو مصطفی محمد کفیل رضا عطاری  مدنی

مصدق: مفتی  فضیل رضا  عطاری

فتوی نمبر: Kan-16495

تاریخ اجراء:       15 رجب المرجب 1443 ھ/17 فروری2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ دکان دار  ادھا ر پر مال خرید تے ہیں، عموما ایسا ہوتا ہے کہ وہ  وقت پر ادائیگی نہیں کرتے؟ ان سے بارہا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے ،لیکن وہ ٹال مٹول کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس  رقم موجود ہوتی ہے، لیکن وہ اسے دیگر مصارف میں صرف کردیتے ہیں اور ادائیگی میں تاخیر کرتے رہتے ہیں ۔تو کیا تاخیر کی وجہ سے وہ  گنہگار ہوں گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی شخص کادین یاقرض ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنے وعدے پر دین یاقرض ادا نہ کرنا اورٹال مٹول سے کام لینا ظلم اور بہت  بڑا گناہ ہے ،اس پر احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ، حدیث پاک میں یہاں تک آیا کہ ایسا شخص جب تک قرض ادا نہ کرے اس کے لیے  ہر دن اور ہر رات گناہ لکھا جاتا ہے۔

    یہ معاملہ حقوق العباد کا ہے اور اللہ تعالی حقو ق العباد کو اس وقت تک معاف نہیں فرماتاجب تک بندہ خود معاف نہ کردے ،لہذا ایسا شخص اگر اسی حالت میں مر گیا کہ لوگوں کا دین اس پرباقی رہاتو بروزِ محشر قرض  دینے والوں کے تقاضے پر اِس کی نیکیاں اُن (قرض خواہوں)کو دی جائیں گی اور جب اِس کےپاس نیکیاں نہیں رہیں گی ،تو اُن (قرض خواہوں) کے گناہ اِس پر ڈالے جائیں گے،   لہذا دکان داروں پر لازم ہے کہ جب ادھار مال خریدیں ،تو اس کی ادائیگی کی وہی مدت طے کریں جس پر وہ ادا کرسکیں اور پھر جب ادائیگی کا وقت آجائے ،تو بلا حیل وحجت ادائیگی کریں تاکہ حق العبد کے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ سکیں۔

   سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ ان اعظم الذنوب عند اللہ ان یلقاہ بھا عبد بعد الکبائر التی نھی اللہ عنھا ، ان یموت رجل وعلیہ دین لا یدع لہ قضاء‘‘ یعنی وہ کبیرہ گناہ جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، ان کے بعد اللہ کے نزدیک سب گناہوں سے بڑا یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر دَین چھوڑ کر مرے اور اُس کے ادا کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو۔(سنن ابی داؤد ، جلد3،صفحہ246، بیروت)

   حدیث شریف میں ہے :’’ ولا غريم يلوي غريمه وهو يقدر إلا كتب اللہ عليه في كل يوم وليلة إثما ‘‘ یعنی  کوئی مقروض نہیں جو قدرت کے باوجود اپنے قرض دينے والے کو ٹالے،مگر یہ کہ اللہ عزوجل ہر دن اور رات میں اس پر گناہ لکھتا ہے۔(شعب الایمان،جلد13، صفحہ523،المعجم الاوسط، جلد5،صفحہ187، دار الحرمين ، القاهرہ)

   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :’’ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال مطل الغنى ظلم ‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۔(صحیح البخاری،کتاب الحوالات،صفحہ 300،مطبوعہ بیروت)

   ایک روایت میں ہے:’’التسویف شعارالشیطان یلقیہ فی قلوب ا لمؤمنین‘‘قرض میں ٹال مٹول کرنا شیطان کا شعار ہے، جو وہ مومنین کے دل میں ڈالتا ہے ۔(جامع الصغیر ،جلد 3،صفحہ373،مطبوعہ بیروت)

   ’’ مطل الغنى ظلم ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’ یعنی جس مقروض کے پاس ادائے قرض کے لیے پیسہ ہو پھر ٹالے، تو وہ ظالم ہے، اسے قرض خواہ ذلیل بھی کرسکتا ہے اور جیل بھی بھجواسکتا ہے،یہ شخص مقروض گنہگار بھی ہوگا کیونکہ ظالم گنہگار ہوتا ہی ہے۔‘‘ (مرأۃ المناجیح ،جلد4، صفحہ342، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ)

   امام اہلسنت رحمہ اللہ تعالی سے سوال ہوا:’’ ایک شخص قدرت کے باوجود اپنے وعدے پر قرض ادا نہیں کرتااور مختلف حیلے بہانے کرتا ہے اس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے ؟(ملخصا)‘‘ تو جوابا آپ علیہ الرحمۃ نے فر مایا :’’ حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لیّ الواجد یحل عرضہ ومطل الغنی ظلم‘‘ہاتھ پہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کوحلال کردیتاہے، یعنی اسے براکہنا اس پر طعن وتشنیع کرنا،جائز ہوجاتا ہے اورغنی کادیرلگاناظلم ہے۔اشباہ والنظائرمیں ہے :’’ خلف الوعد حرام‘‘وعدہ جھوٹاکرنا حرام ہے۔۔۔صورت مستفسرہ میں زیدفاسق وفاجر، مرتکب کبائر، ظالم، کذّاب، مستحق عذاب ہے۔ اس سے زیادہ اورکیا القاب اپنے لیے چاہتاہے، اگراس حالت میں مرگیا اوردین لوگوں کا اس پرباقی رہا اس کی نیکیاں ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی اور کیونکردی جائیں گی تقریباً تین پیسہ دین کے عوض سات سو نمازیں باجماعت کما فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار والعیاذباللہ العزیز الغفار(جیساکہ درمختار وغیرہ معتمد کتب میں ہے۔ اﷲ عزیز غفارکی پناہ۔ت) جب اس کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی ،ان کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں گے ویلقی فی النّار اور آگ میں پھینک دیاجائے گا، یہ حکم عدل ہے، اور اﷲ تعالی حقوق العباد معاف نہیں کرتا، جب تک بندے خود معاف نہ کریں، اورسلف صالحین کے احوال طیّبہ کو اپنے ان مظالم کی سندقراردینا اورزیادہ وقاحت اوردین متین پرجرأت ہے، اس پرفرض ہے کہ اپنے حال پر رحم کرے اوردیون سے پاک ہو، موت کودورنہ جانے، آگ کا عذاب سَہانہ جائے گا۔ اﷲتعالی توفیق دے۔(ملتقطا)‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ68،69،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم