مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0415
تاریخ اجراء: 25صفر المظفر1446ھ/31اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ ہمارے ہاں پیکج پر گھر ملتے ہیں یعنی کچھ رقم مثلاً:پچاس ہزار روپےجمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے بدلے رہائش کے لیے گھر ملتا ہے اور سال بھر کرایہ بھی نہیں دینا ہوتا،سال مکمل ہونے پر گھر مالک مکان کوواپس دے دیا جاتا ہے اور مالک مکان پورے پیسے بھی واپس کردیتا ہے،پوچھنا یہ تھا کہ اس طرح گھر لینا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ صورت سودی طریقے پر مشتمل ہے،لہٰذا اس طریقہ کار کے مطابق گھر لینا اور دینا دونوں ہی ناجائز وگناہ ہے،اور اگر لےچکا،تو فوراً واپس کرنا لازم ہے اور جتنا عرصہ مکان اور رقم سے نفع اٹھائیں گے،اتنا عرصہ سودی معاملے کے گناہ میں گرفتار رہیں گے، لہذا فورا ً گھر واپس کیا جائے اور گھر واپس کرنے کی صورت میں جتنا عرصہ اس گھر میں رہا،اتنے عرصے کا مارکیٹ ویلیو کے مطابق جو واجبی کرایہ بنتا ہے،وہ بھی مالک مکان کو دینا لازم ہوگا،نیز سود کے گناہ سے توبہ بھی لازم ہے۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ عقود میں معانی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور بیان کردہ صورت میں گھر لینے سے پہلے جو رقم دی جارہی ہے، وہ معنوی اعتبار سے قرض ہے کہ مکان لینے کا خواہاں شخص وہ رقم ایک سال کے لیے مالک مکان کودے گا ،جسے مالک مکان استعمال کرے گا،اور سال کے پورا ہونے پر بغیر کسی کم و کاست کے اتنی رقم واپس کردے گا اور یہی معنی قرض کا ہوتا ہے،اب اسے کوئی بھی نام دے دیا جائے،اس سےحقیقت نہیں بدلے گی۔
دوسری طرف مذکورہ صورت اجارہ فاسدہ شمارہوگی، کیونکہ مکان والے نے حقیقت میں مفت میں گھر نہیں دیا ،بلکہ قرض لینے کی منفعت کے بدلے ہی دیا ،جواجارہ ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ طریقہ جائز نہیں،تو اب اس کے بدلے اجرت مثل لازم ہوگی اور دونوں افراد پر لازم ہوگا کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر ختم کردیں اور قرض دینے والا جتنا عرصہ گھرمیں رہائش اختیار کرچکا تھا، اتنی مدت کا واجبی کرایہ وہ مالک مکان کو دےنیز عاقدین سودی معاملے کے گناہ سے توبہ بھی کریں۔
عقودمیں معانی کا اعتبارہونے کے متعلق ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ ‘‘میں ہے:”العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني“عقود میں مقاصد اور معانی کا اعتبار ہوتا ہے ، الفاظ اور مبانی کا نہیں۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، ص 16، مطبوعہ کراچی)
اور قرض کی تعریف کے حوالے سے تنویرالابصارمیں ہے : ”ھوعقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لآخر لیرد مثلہ“قرض وہ عقدمخصوص ہے ، جس میں مثلی مال دیاجاتاہے، اس لیے کہ اس کامثل واپس کیاجائے۔ (تنویر الابصار ودرمختارمع ردالمحتار،ج05،ص161،دار الفکر)
قرض سے مشروط نفع حاصل کرنا سود ہے،اس حوالے سے حدیث پاک میں ہے:’’ کل قرض جر منفعۃ فھو ربا‘‘ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود ہے۔ (کنزالعمال،ج6،ص99،مطبوعہ لاھور )
محیط برہانی میں ہے:’’قال محمد رحمہ اللہ تعالی فی کتاب الصرف : ان ابا حنفیۃ رضی اللہ تعالی عنہ کا ن یکرہ کل قرض جر منفعۃ ، قال الکرخی : ھذا اذا کانت المنفعۃ مشروطۃ فی العقد‘‘امام محمد علیہ الرحمۃ کتاب الصرف میں فرماتے ہیں:امام اعظم ابو حنیفہرحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر اس قرض کو جو نفع لائے ،مکروہ قرار دیتے تھے۔ امام کرخی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں: یہ اس وقت ہے جبکہ نفع عقد میں مشروط ہو ۔(محیط برھانی،ج10، ص351 ،مطبوعہ ادارۃ القرآن)
سود کی حرمت کے حوالے سے اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے:﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح جسے آسیب نے چھو کرپاگل بنادیا ہو۔ یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے کہا: خریدوفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے،حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا۔ (پارہ3،سورۃالبقرہ،آیت275)
صحیح المسلم میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آکل الربو و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال:ھم سواء‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے،کھلانے والے ،اس کی کتابت کرنے والےاور اس پر گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایایہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔ (الصحیح لمسلم، ج03،ص121،رقم1598،دار احياء التراث العربي)
مذکورہ صورت میں منفعتِ قرض کے بدلے گھر لینا اجارہ فاسدہ میں داخل ہے ،اس حوالے سے محيط برہانی، شامی ، عالمگیری ،مجمع الضمانات وغیرہ کتب فقہیہ میں ہے،واللفظ لرد المحتار:”قال في التتارخانية ما نصه: ولو استقرض دراهم وسلم حماره إلى المقرض ليستعمله إلى شهرين حتى يوفيه دينه أو داره ليسكنها فهو بمنزلة الإجارة الفاسدة، إن استعمله فعليه أجر مثله ولا يكون رهنا“تتارخانیہ میں فرمایا جس کی عبارت کچھ یوں ہے: اگر کسی نے دراہم قرض لیے اور اس نے اپنا گدھا قرض خواہ کے سپرد کردیا تاکہ قرض کی ادائیگی یعنی دو ماہ تک وہ اسے استعمال کرے،یااپنا گھراسے دیا تاکہ وہ اس میں رہائش اختیار کرے تو یہ اجارہ فاسدہ کے قائم مقام ہے ،اگر وہ اس گدھے یا گھر کو استعمال میں لائے گا، تو اس پر اجرت مثل واجب ہوگی اور یہ رہن نہیں ہے۔ (رد المحتار،ج 06 ،ص482،دار الفکر)
ایک دوسرے مقام میں فرمایا:”وفی الخانیۃ:رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا “خانیہ میں ہے:ایک شخص نے دراہم قرض کے طور پر لیے اور قرض خواہ کو اپنے مکان میں رہائش دی ،تو فقہائے کرام نے فرمایا کہ قرض خواہ پر ا جرت مثل واجب ہوگی ،کیونکہ قرض دار نے اسے اپنے گھر میں رہائش منفعت قرض کے عوض دی ہے ،مفت میں نہیں۔ (رد المحتار،ج 06 ،ص63،دار الفکر)
عقود الدریہ میں ہے:”مسألة يجب التنبيه عليها لكثرة وقوعها في زماننا وقل من يعرفها وهي ما في الفصل الثالث من الخلاصة رجل استقرض دراهم من رجل فقال له اسكن في حانوتي فما لم أرد عليك دراهمك لا أطالبك بأجرة الحانوت والأجر الذي يجب عليك هبة فدفع المقرض إليه ألف درهم وسكن الحانوت مدة۔
ونقل المسألة في التتارخانية في متفرقات الإجارة عن النوازل ثم قال عقبها قيل الصحيح أنه يجب أجر المثل وفي الكبرى قال فخر الدين وعليه الفتوى ووجه لزوم الأجرة مع التصريح بإسقاطها أن المستقرض لم يسكنه في داره إلا بمقابلة منفعة القرض وذلك لا يصلح عوضا فيجب أجر المثل؛ لأنه إجارة فاسدة والإجارة لا بد فيها من الأجرة وقد صرح في الأشباه وغيرها بأنه لو قال آجرتك بغير شيء فهي إجارة فاسدة لا عارية. اهـ. وقد صرحوا بأن الإجارة الفاسدة يجب فيها أجر المثل فاحفظ هذه المسألة فإنها مهمة“یہاں ایک مسئلہ ہےجس سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے ،یہ ہمارے زمانے میں کثرت سے پیش آتا ہے،لیکن بہت کم لوگ اس سے آشنا ہیں،خلاصہ کے فصل ثالث میں مذکورہے کہ ایک شخص نے کسی سے دراہم قرض لیے،اور اس سے کہا تم میری دکان میں رہائش اختیار کرلو،جب تک میں تمہارے دراہم واپس نہیں کرتا ،اس وقت تک میں تم سے اجرت نہیں مانگوں گا،جتنی اجرت تم پر بنےوہ تمہارے لیے تحفہ ہے،لہٰذا قرض خواہ نے اسے ایک ہزار دراہم دے دیئے اور دکان میں ایک عرصے تک رہائش اختیار کرلی،یہی مسئلہ تتارخانیہ میں کتاب الاجارہ کے متفرقات میں نوازل سے بیان فرمایا اور ا س کے بعد فرمایا :صحیح یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں اجرت مثل لازم ہے،کبریٰ میں ہے:امام فخر الدین نے فرمایا کہ اسی پر فتوی ہے۔صراحتاً اجارہ ساقط کردینے کے باوجود یہاں اجارہ اس وجہ سے لازم ہےکہ قرض دار اپنے مکان میں قرض خواہ کو مفت رہائش نہیں دے رہا، بلکہ قرض کی منفعت کے بدلے دے رہا ہے،اور یہ عوض بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا،لہٰذا اجرت مثل لازم ہوگی،کیونکہ یہ اجارہ فاسدہ ہے۔عقد اجارہ میں اجرت طے پانا ضروری ہے،اشباہ وغیرہ میں صراحت کی ہے: اگر کسی نے کہا میں نے تمہیں( فلاں چیز) مفت اجارےپردی،تو یہ اجارہ فاسدہ ہے،عاریت نہیں،اھ۔لہٰذا فقہائے کرام صراحت فرماچکے کہ یہ اجارہ فاسدہ ہے اور اس میں اجرت مثل لازم ہوگی،اسے یاد کرلو یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔(ملتقطاً من العقو دالدریہ، ،ج02، ص114،دار المعرفہ،بیروت)
مفتی محمدنوراللہ نعیمی علیہ الرحمۃ اسی صورت کے حوالے سے لکھتے ہیں:”ہمارے حضرات فقہائے کرام نے ایسی صورتوں کو اجارہ فاسدہ کے مرتبہ میں قرار دیا ہے کہ اگر نفع اٹھائے، تو اجر لازم اور رہن نہ ہوگا،الحاصل اجرت مثل دے کر جان چھڑائے اگر کچھ نفع اٹھا چکا ہے تو ،او راگر ابھی تک نفع نہیں اٹھا چکا تو شرط کو اٹھا کر معاملہ نیک کرلے ورنہ زمرہ سود خواراں میں داخل اور وعید و عذابِ رِبٰو خواراں اسے شامل ہوگا۔“ (فتاوی نوریہ ،ج04،ص190،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ، بصیرپور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ