Loan apps ke Zariye qarz lena kaisa ?

Loan apps کے ذریعے قرض لینا کیسا ؟

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Uk-80

تاریخ اجراء: 04  ذ یقعدۃ الحرام   1443 ھ/04 جون     2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کچھ اس طرح کی موبائل ایپلی کیشنز  آئی ہوئی ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی آسانی سے قرض حاصل کر لیتا ہے ۔ طریقہ  یہ ہوتا ہے کہ موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی پرسنل انفارمیشن جمع کروا کے اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے اور پھر قرض کی درخواست دے دی جاتی ہے۔ عموما پہلی مرتبہ کم مقدار میں قرض ملتا ہے ، پھر اگر بروقت واپس ادا کر دیا جائے تو دوسری بار زیادہ مقدار میں قرض ملتا ہے۔ قرض کی رقم آپ کے کسی اکاؤنٹ مثلا  بینک اکاؤنٹ یا جاز کیش اکاؤنٹ  وغیرہ میں آجاتی ہے اور اسی طرح آن لائن  رقم بھیجنے کے ذرائع استعمال کر کے آپ وہ رقم واپس بھیج سکتے ہیں۔ قرض کے طور پر جتنی رقم دی جاتی ہے واپسی میں ا س سے کچھ نہ کچھ زیادہ رقم دینی ہوتی ہے۔ بعض ایپلی کیشنز قرض پر اضافی رقم الگ سے لیتی ہیں اور سروس چارجز کے نام پر رقم الگ  لیتی ہیں۔ مثلا آپ نے بارہ ہزار قرض کی درخواست کی ہے تو آپ کے اکاؤنٹ میں 9 ہزار آئیں گے۔ یعنی  5 سو روپے سروس چارجز کے اور پچیس سو (2500) روپےقرض پر جو اضافہ لینا ہے وہ پہلے ہی  کاٹ لئے جائیں گے اور اب رقم واپس کرنی ہے تو پورے 12 ہزار واپس کرنے ہیں۔

     اس تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی ایپلی کیشنز کے ذریعے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سوال میں ایپلی کیشنز سے قرض کے لین دین کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے ،یہ قطعی سود،  یقینی حرام ، گناہ کبیرہ اور  خبیث عمل  ہے کیونکہ قرض کے اوپرجو  نفع طے کیا جاتا ہے وہ سود ہوتا ہے ، جیسا کہ  حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ترجمہ:ہروہ قرض جونفع کھینچے تووہ سودہے۔ (مسندالحارث،جلد1،صفحہ 500،مرکزخدمۃ السنۃوالسیرۃ النبویۃ،المدینۃ المنورۃ)

     جو لوگ اس طرح سودی قرض دیتے ہیں وہ معلون ہیں اور جہنم کے مستحق ہیں اور بلا ضرورت شرعیہ ایسا قرض لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون اور جہنم کا مستحق ہے۔ قرآن و حدیث میں سود کے متعلق مختلف وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ  َحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواترجمہ کنزالعرفان: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح جسے آسیب نے چھو کرپاگل بنادیا ہو۔ یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے کہا: خریدوفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اورسود کو حرام کیا۔(سورۃ البقرۃ ، آیت: 275)

     مزید ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ(۲۷۸)فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تواللہ سے ڈرو اور جو سودباقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔“(سورۃ البقرۃ : آیت: 278و 279)

     حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :’’ لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله ‘‘ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے  والے، سود کھلانے  والے پر لعنت فرمائی۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع،جلد3، صفحہ 1219،حدیث:1598، دار احیاء التراث العربی بیروت)

     ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ومن أكل درهما من ربا فهو مثل ثلاث وثلاثين زنية، ومن نبت لحمه من السحت فالنار أولى به “ترجمہ:جس نے  ایک درہم سود کا کھایا تو وہ  تینتیس زنا کے برابر ہےاور جس کا گوشت حرام سے بڑھے تو نارجہنم اس کی زیادہ مستحق ہے۔(المعجم الاوسط ، جلد3، صفحہ  211، دار الحرمین ، قاھرہ)

     دس روپے قرض دے کر بارہ روپے واپس لینے کے متعلق سوال ہوا تو اس کے متعلق امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں :” اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی ، تو بے شک سود و حرامِ قطعی و گناہِ کبیرہ ہے ۔ ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کے مثل ملعون ہے اگر بے ضرورت شرعیہ قرض لیا ہو۔“( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 278 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

     واضح رہے کہ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے قرض کے اوپر جواضافہ لیا جاتا ہے ، اس کو انٹرسٹ (interest) کہا جائے،  پروسیسنگ  فیس کہا جائے یا سروس چارجز  کا محض نام دیا جائے، ہر صورت میں یہ اضافہ سود او رحرام ہی کہلائے گا۔ نام بدلنے سے چیز کی حقیقت و مفہوم نہیں بدلتا اور شریعت کا قاعدہ ہے  اعتبار مقاصد و معانی  کا ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کا چنانچہ  مجلہ میں فقہی قواعد بیان کرتے ہوئے ایک قاعدہ یوں لکھا: العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمبانيترجمہ: عقود میں مقاصد اور معانی کا اعتبار ہوتا ہے ، الفاظ اور مبانی کا اعتبار نہیں ہوتا۔ (مجلۃ  الاحکام العدلیہ، صفحہ 16، مطبوعہ کراچی)

     لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے بھی سودی قرض کے لین دین سے باز رہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں سود کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم