Kya Samandar Me Doob Kar Marne Wale Ka Qarz Maaf Ho Jata hai

کیا سمندرمیں ڈوب کرشہید ہونے والے کا قرض معاف ہوجاتا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12344

تاریخ اجراء:        13 محرم الحرام 1444 ھ/12 اگست 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ہم نے سنا ہے کہ جو شخص ڈوب کر شہید ہوجائے ، اس کا قرض معاف ہوجاتا ہے، کیا یہ بات شرعی اعتبار سے درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سمندر میں شہید ہوجانے والے کے حق میں اس طرح کی روایت وارد ہوئی ہے کہ اللہ پاک اپنے دستِ قدرت سے اس کی روح قبض فرماتا،اپنے تمام حقوق اسے معاف فرماتااور بندوں کے وہ تمام مطالبے جو اس شہید ہونے والے پر تھے ،وہ سب اپنے ذمۂ  کرم پرلے لیتا ہے،لیکن اس حدیث میں جس شہید کاتذکرہ ہے،اس سے مراد وہ شہید ہے جو اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ (یعنی کلمۂ  حق  بلندکرنے) کے لیے سمندر میں جہاد کرے اور وہاں شہید ہوجائے۔

   اس کے علاوہ اگر کوئی مسلمان ویسے ہی پانی میں ڈوب کر وفات پاجاتا ہے ، اس کو بھی حدیث میں شہید کہا گیا،جس کا معنی یہ ہے کہ روزِ قیامت انہیں شُہَدا کے ثواب کی مثل ثواب عطا کیا جائے گا، اس شہادت سے اس کےدیون(یعنی حقوق العباد)معاف نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی حدیث میں اس طرح کی صراحت ہے کہ اس کا دَین اللہ نے اپنے ذمۂ  کرم پر لیا ہو۔

   امام ابنِ ماجہ اپنی سنن اور امام طبرانی معجمِ کبیر میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:” شهيد البحر مثل شهيدی البر و المائد فی البحر كالمتشحط فی دمه فی البر و ما بين الموجتين فی البحر كقاطع الدنيا فی طاعة اللہ و ان اللہ عز و جل وكل ملك الموت بقبض الارواح الا شهید البحر فانه يتولى قبض ارواحهم و يغفر لشهيد البر الذنوب كلها الا الدين و لشهيد البحر الذنوب و الدين “یعنی :سمندر میں شہید ہونے والا خشکی میں شہید ہونے والے دو بندوں کی مثل ہے۔ سمندر میں چکرانے والا خشکی میں اپنے خون میں لتھڑنے والے کی طرح ہے اور سمندر میں جو دوموجوں کے درمیان ہووہ ایسے ہے جیسے اللہ پاک کی اطاعت کے لیے دنیا سے کٹ جانے والا اور اللہ پاک نے ملک الموت کو ارواح قبض کرنے پر مامور فرمادیا سوائے سمندر میں شہید ہونے والے کے کہ اللہ پاک ان کی ارواح کو خود قبض فرماتا ہے اور خشکی میں شہید ہونے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے ،سوائے دَین کے اور سمندر میں شہید ہونے والے کے گناہ  اور دَین  معاف فرما دیتا ہے۔(سننِ ابن ماجہ، حدیث 2778،صفحہ 199،مطبوعہ کراچی)

   علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فیض القدیر میں فرماتے ہیں:”(شھید البحر یغفر لہ کل ذنب) عملہ من الکبائر والصغائر ۔۔۔فانہ افضل من شھید البر لکونہ ارتکب غررین فی دین اللہ عزوجل :رکوبہ البحر المخوف وقتال اعدائہ ۔قال الحافظ ابن حجر:وفی معنی الدین جمیع التبعات المتعلقات بالعباد“یعنی :(شہیدِ بحر کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں )جو اس نے صغیرہ  و کبیرہ گناہ کیے ۔۔۔کیونکہ یہ خشکی پر شہادت پانے والے سےاس بنا پر  افضل ہے کہ اس نے اللہ کے دین کے لیےدو خطروں کا مقابلہ کیا:خوفزدہ کر دینے والے سمندری سفر پر نکلا اور اللہ کریم کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور دَین کے معنی میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جن کا تعلق بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔(فیض القدیر، جلد4،صفحہ 166،تحت حدیث4906،مطبوعہ بیروت)

   جدالممتار میں ہے:”نعم!قد ورد لشھید البحر التنصیص بغفران الذنوب کلھا حتی الدین والمظالم والتبعات“یعنی ہاں !بے شک سمندر میں شہید ہونے والے کے لیے تمام گناہوں  یہاں تک کہ دَین، مظالم  اور تبعات کی بخشش کی صراحت وارد ہوئی ہے۔(جدالممتار، جلد4،صفحہ 370،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   خشکی کے شہید کے لیے احادیث میں صراحت ہے کہ اس کا قرض معاف نہیں ہوگا ۔چنانچہ مشکوۃ المصابیح میں بحوالہ مسلم حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرمایا:ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:”ارایت ان قتلت فی سبیل اللہ ایکفر عنی خطایای ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :نعم!وانت صابر مستحب مقبل غیر مدبر الا الدین،فان جبریل قال لی ذلک“یعنی :اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں ،تو کیا میری خطائیں مٹا دی جائیں گی؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہاں!(یعنی تیری خطائیں مٹادی جائیں گی)جبکہ تو صابر، طالبِ اجر ہو ،آگے بڑھتا ہوا ہو ، پیچھے ہٹتا ہوا نہ ہو،سوائے قرض کے ، حضرت جبریل نے یہی بات مجھے بتائی۔(مشکوۃ المصابیح مع المرقاۃ، جلد7،صفحہ 339،مطبوعہ بیروت)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”قال التور بشتی :اراد بالدین ھنا مایتعلق بذمتہ من حقوق المسلمین ۔۔۔۔وقال النووی :فیہ تنبیہ علی جمیع حقوق الآدمیین وان الجھاد والشھادۃ وغیرھما من اعمال البر لایکفر حقوق الآدمیین  وانما یکفر حقوق اللہ ۔قلت:الا شھید البحر فانہ یغفر لہ الذنوب کلھا والدین کما ورد فی حدیث“یعنی :علامہ تورپشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:دَین سے مراد یہاں وہ تمام حقوقِ مسلمین ہیں، جو اس کے ذمہ سے متعلق ہیں۔۔۔۔اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس حدیث میں تمام حقوق العبادپر تنبیہ ہے اوراس بات پر تنبیہ ہے کہ جہاد کرنا اور شہادت حاصل کرنااور دیگر نیک اعمال حقوق العباد معاف نہیں کرواتے ،ان سےصرف حقوق اللہ معاف ہوں گے۔ میں کہتا ہوں :سوائے شہیدِ بحر کے ،کیونکہ اس کے تمام گناہ اور دیون معاف کردئیے جائیں گے،جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد7،صفحہ 340،مطبوعہ بیروت)

   امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:’’اس وقت کی نظر میں اس(حقوق اللہ و حقوق العباد کی معافی) کا جلیل وعدہ ،جمیل مژدہ صاف صریح بالتصریح یا کالتصریح پانچ فرقوں کے لیے وارد ہوا۔

   (ان پانچ میں سے ایک شہید البحر بھی ہے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں) ”شہیدِ بحرکہ خاص اﷲ عزوجل کی رضاچاہنےاور اس کابول بالاہونے کے لیے سمندرمیں جہاد کرے اور وہاں ڈوب کر شہید ہو،حدیثوں میں آیا کہ مولیٰ عزوجل خود اپنے دستِ قدرت سے اس کی روح قبض کرتا اوراپنے تمام حقوق اسے معاف فرماتا اور بندوں کے سب مطالبے جو اس پرتھے اپنے ذمہ کرم پرلیتاہے۔“ (ملتقطاً فتاوی رضویہ ،جلد24،صفحہ 466،468،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم