Kya Qarz Mein Currency Ke Devalue Hone Ka Bhi Aitibar Hai?

کیا قرض میں کرنسی کے ڈی ویلیو ہونے کا بھی اعتبار ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13419

تاریخ اجراء: 20ذی الحجۃ الحرام1445 ھ/27جون  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر سے2003ء یا 2004ء میں  بطورِ قرض ایک لاکھ روپے لیے تھے۔ زید نے قرض دکان کی مد میں لیا تھا، لیکن وہ دوکان چل نہیں پائی اور نقصان ہوگیا جس کی بنا پر فوراً اُس قرض کی ادائیگی نہیں ہو پائی ، اور بکر کی طرف سے بھی جلدی قرض ادائیگی کا کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ اب بکر اپنے قرض کا مطالبہ کررہا ہے لیکن ساتھ ہی وہ کہہ رہا ہے کہ آج ایک لاکھ کی وہ ویلیو نہیں ہے جو آج سے 20 سال پہلے تھی، لہذا آپ مجھے ایک لاکھ کے بجائے پانچ لاکھ روپے ادا کرو۔ اس صورت میں کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حکمِ شرع یہ ہے کہ جتنے روپے بطورِ قرض لئے تھے اُتنے ہی واپس کرنا لازم ہیں، اب روپے کی ویلیو کم ہوئی ہو یا زیادہ ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ قرض کی ادائیگی میں چیز کے سستا یا مہنگا ہونے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔

   پوچھی گئی صورت میں چونکہ بکر نے زید کو بیس سال قبل ایک لاکھ روپے بطورِ قرض دیے تھے، لہذا اب زید پر فقط ایک لاکھ روپے ادا کرنا ہی لازم ہیں،  یہاں روپے کی قیمت کے  ڈی ویلیوہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں بکر کا زید سے پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں، اگرچہ کہ بیس سال پہلے ایک لاکھ کی ویلیو بہت زیادہ تھی۔

   البتہ یہ ضرور یاد رہے کہ صورتِ مسئولہ میں اگر زیدقرض کی ادائیگی پر قادر تھا مگرجان بوجھ کر اُس نے کئی سال تک قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو اُس کا ایسا کرنا،  جائز نہیں تھا کہ مقروض کا باوجود قدرت کے ٹال مٹول سے کام لینا ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے،اس پر احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ، حدیث پاک میں تو یہاں تک بیان ہوا کہ ایسا شخص جب تک قرض ادا نہ کرے،  اس کے لیے ہر دن اور ہر رات گناہ لکھا جاتا ہے۔

   چنانچہ المعجم الاوسط، شعب الایمان، کنز العمال، جمع الجوامع کی حدیثِ پاک میں  ہے:والنظم للاول“ و لیس من عبد يلوي غريمه، وهو يجد  إلا كتب اللہ عليه في كل يوم وليلة إثماً۔یعنی کوئی مقروض نہیں جو قدرت ہونے کے باوجود اپنے قرض دينے والے کو ٹالے،مگر یہ کہ اللہ عزوجل ہر دن اور رات میں اس پر گناہ لکھتا ہے۔(المعجم الاوسط، ج05،ص187، دار الحرمين، القاهرہ)

   صحیح البخاری  کی حدیثِ پاک میں حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال مطل الغنى ظلم۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔(صحیح البخاری،کتاب الاستقراض، ج 03، ص 118، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)

   قرض میں چیز کی قیمت کے بڑھنے یا کم ہونے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ جیسا کہ تنقیح الفتاوی الحامدیہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور  ہے:”سئل رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم  غلا سعرها فهل عليه ردمثلها؟ الجواب نعم ولا ينظر الى غلاء الدراهم ورخصها۔  یعنی  سوال کیا گیا کہ کسی شخص نے دوسرے سے دراہم کی کچھ مقدار قرض لی اور اس میں تصرف کیا ،پھر ان دراہم کی قیمت بڑھ گئی ، تو کیا اس پر اس کا مثل لوٹانا لازم ہے ؟ جواب : جی ہاں (مثل کا لوٹانا ہی لازم ہے ) اور دراہم کے مہنگے اور سستے ہونے کا اعتبار نہیں۔(تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، ج 01، ص 294، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہے اُس کی مثل ادا کی جائے۔۔۔ ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لیے تھے اُن کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا وہی دس سیر گیہوں دینے ہونگے۔“(بہارِ شریعت، ج 02، ص 757-756، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم