Qarz Lene Ki Wajah Se Kam Paison Mein Kaam Karna Sood Hai ?

 

قرض لینے کی وجہ سے کم پیسوں میں کام کرنا سود ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8974

تاریخ اجراء: 27ذو الحجۃ  الحرام  1445ھ/04 جولائی    2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ میرے والد صاحب کے پاس ٹریکٹر ہے،وہ دوسروں کی زمین  میں ہل وغیرہ چلانے کاکام کرتے ہیں۔فی ایکڑ 2000  روپے مختص ریٹ ہے۔میرے والد صاحب کے کزن ہیں،ان کے پاس 20 ایکڑ زمین ہے،وہ کہتے ہیں کہ آپ ہم سے تین لاکھ روپے قرض لے لیں،جس کی ادائیگی آپ بعد میں ہمیں کر دینا،لیکن اس قرض  کے بدلے آپ ہماری زمین میں ٹریکٹر چلانے کے ہم سے 1000 روپے لیں۔اب سوال یہ ہےکہ میرےوالد صاحب کاتین لاکھ قرض لینے کے بدلے ان سے زمین میں کام کی اجرت 2000 کی بجائے 1000 لینا  کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اُصول یہ ہےکہ قرض کی بنا پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا،خواہ وہ صراحتاًمشروط ہویادلالۃً (Understood)مطلقاً سوداور حرام ہےاور فقہائےکرام نے قرض کی وجہ سے کسی قسم  کی مشروط رعایت یا حق میں کمی کرنے کو بھی سود قرار دیا ہے ،لہٰذا ذکر کردہ صورت میں آپ کے والد صاحب کا تین لاکھ قرض لینے کی وجہ سے زمین میں ہل چلانے کی فی ایکڑ رائج دو ہزار اُجرت کی بجائے،ایک ہزار   لینا قرض پر مشروط نفع دینا ہے،جوکہ ناجائز و گناہ اور سود کے زمرے میں شامل ہے،لہٰذا شرعاًایسا معاہدہ کرنے کی اجازت نہیں۔

   قرض کی بنا پر ہر قسم کا مشروط نفع سود کے زمرے میں شامل ہے،چنانچہ ایک سوال کے جواب میں قرض پر منفعت کا اُصول  بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء)لکھتےہیں:قول منقح ومحرر و اصل محقق ومقرریہ ہے کہ بر بنائے قرض کسی قسم کانفع لینامطلقاً سودوحرام ہے،حدیث میں ہے، حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’کل قرض جرمنفعۃ فھورباً ‘‘یعنی ہر وہ قرض جو نفع کھینچ کرلائے ،وہ سود ہے۔( کنزالعمال،بحوالہ الحارث عن علی،حدیث : 15156، جلد6، صفحہ 238، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ،بیروت ) اوراگراس بنا سے جدا ویسے ہی باہمی سلوک کے طورپر کوئی نفع وانتفاع ہو،تووہ مدیون کی مرضی پرہے،اُس کے خالص رضاواذن سے ہو،تو رَوَا ،ورنہ حرام،اب یہ بات کہ یہ انتفاع بربنائے قرض ہے یابطور سلوک اس کے لئے معیار شرط وقراردادہے یعنی اگرقرض اس شرط پردیاکہ نفع لیں گے، تووہ نفع بربنائے قرض حرام ہوا اوراگرقرض میں اس کاکچھ لحاظ نہ تھا، پھر آپس کی رضامندی سے کوئی منفعت بطور احسان ومروّت حاصل ہوئی،تو وہ بربنائے حسنِ سلوک ہے،نہ بربنائے قرض،تومدارِ کارشرط پرٹھہرا یعنی نفع مشروط، سُود اورنفع غیرِمشروط سود نہیں،بلکہ باذنِ مالک مباح، پھرشرط کی دوصورتیں ہیں:نصاً یعنی بالتصریح قراردادِانتفاع ہوجائے۔اورعُرفاً کہ زبان سے کچھ نہ کہیں،مگربحکمِ رسم ورواج قرارداد معلوم اور داد و سِتَد خود ہی ماخوذ و مفہوم ہو،ان دونوں صورتوں میں وہ نفع حرام وسُودہے۔(فتاوی رضویہ،جلد 25،صفحہ 223،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور قرض پر نفع کی ایک صورت یہ بھی ہےکہ مقروض اپنے قرض خواہ کو خرید و فروخت، کرایہ ،وغیرہ میں کوئی رعایت کرےیا اسے تحفہ و تحائف دے،چنانچہ اس حوالے سے تفصیلاً کلام کرتے ہوئے شیخ الاسلام   ابو الحسن على بن حسین سُغْدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  (سالِ وفات: 461ھ /1068ء)لکھتے ہیں: أنواع الربا:وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض…فأما في القروض فهو علی وجهین: أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها،والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض،أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…ولو لم یکن سبب ذلک (هذا)القرض لما کان(ذلک ) الفعل، فإن ذلک ربا‘‘ ترجمہ:بہر حال سود،تو اس کی تین صورتیں ہیں:ان میں سے ایک قرض میں سود ہونا،پھرقرض میں سود کی دو قسمیں ہیں، پہلی یہ کہ کسی کو دس درہم قرض اس طور  پر دینا کہ وہ گیارہ یا بارہ درہم   لوٹائے۔اور دوسری یہ کہ قرض   کی وجہ سے کسی بھی طرح  کانفع حاصل کرنا،اس کی صورت یہ کہ قرض لینے والا  قرض کی وجہ سے اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کو   اصل قیمت سے سستی بیچےیا  کوئی چیز اصل اجرت سے کم اجرت پر اجارہ پر دے  یا کوئی چیز ہبہ کردے ۔ اگر یہ قرض  نہ ہوتا ، تو ریٹ میں کمی کا یہ معاملہ بھی نہ ہوتا  اور   یہی سود ہے (کہ قرض کی وجہ سے کوئی نفع لیا اور دیا جائے ) ۔(النتف فی الفتاویٰ ،کتاب الولاء ،صفحہ 296 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت )

   اسی طرح کی ایک صورت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نےبھی  ذکر کی۔(ردالمحتار مع  الدر المختار، کتاب البيوع، جلد7، صفحہ38، مطبوعہ  کوئٹہ)

   امامِ اہلِ سنّت  امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ’’ ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم بطورِ قرض دیتا ہے اور وہ اس وجہ سے اس سے مارکیٹ ریٹ سے سستی گندم لیتا ہے،تو شرعاً ایسا کرنا کیسا  ہے؟‘‘ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: اگر روپیہ قرض دیا اور یہ شرط کرلی کہ چار مہینے کے بعد ایک روپے کے پچیس ماء (ایک پیمانہ )گیہوں  لیں  گے اور نرخ بازار پچیس سیر سے بہت کم ہے،تو یہ محض سود اور سخت حرام ہے،  حدیث میں  ہے:’’ کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا‘‘جو  قرض نفع کو کھینچے وہ سود ہے۔( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 334 ،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم