Kya Nabaligh Bacha Apni Zati Raqam Masjid Ya Madrase Mein De Sakta Hai?

کیا نابالغ بچہ اپنی ذاتی رقم مسجد یا مدرسے میں دے سکتا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12993

تاریخ اجراء:        27صفر المظفر1445 ھ/14ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دِین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ گیارہ سال کا نابالغ بچہ اپنی مرضی سے نفلی صدقہ کرسکتا ہے؟ مسجد مدرسے میں پیسے دینا چاہے تو دے سکتا ہے؟  یا اُسے نفلی صدقہ کرنے کے لیے والدین کی اجازت کی ضرورت ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاد کی اسلامی تربیت کرنا والدین کے اہم فرائض میں سے ہے، لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچپن ہی سے اپنی اولاد کو صدقہ و خیرات کرنے کا عادی بنائیں۔ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ والدین انہیں صدقہ و خیرات کے فضائل بتا کر اپنی ذاتی رقم یا  مال ان بچوں کے ہاتھوں سے کسی جائز کام میں خرچ کروائیں مثلاً مسجد و مدرسے میں اپنے ذاتی پیسے اُن کے ہاتھوں سے بھجوائیں تا کہ  یہ نیک خصلت ان میں جڑ پکڑ جائے ۔

   البتہ پوچھے گئے سوال کا جواب یہ ہے کہ نابالغ اپنی مرضی سے یا والدین کی اجازت سے بہر صورت نفلی صدقہ نہیں دے سکتا، یعنی اپنی ذاتی رقم مسجد و مدرسے میں خرچ نہیں کرسکتا کہ نابالغ مالی صدقے کا اہل نہیں۔ جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق باپ کے لیے جائز نہیں کہ وہ نابالغ کے مال کو ہبہ (Gift) یا صدقہ کرے بلکہ خود نابالغ کے اپنے ذاتی مال میں اس طرح کے تمام تصرفات بھی باطل ہوں گے ۔

   باپ کے لیے جائز نہیں کہ وہ نابالغ کے مال کو ہبہ کرے۔ جیسا کہ درِ مختارمیں ہے:”و فیھا: لا یجوز ان یھب شئیاً من مالِ طفلہ ولو بعوض لانھا تبرع ابتداءیعنی خانیہ میں مذکور ہے کہ باپ کے لئے جائز نہیں کہ وہ بچے کے مال میں سے کوئی چیز ہبہ کرے اگر چہ یہ ہبہ بالعوض ہی کیوں نہ  ہو، کیونکہ یہ (ہبہ بالعوض) ابتداءً تبرع ہے۔( الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبۃ، ج 08، ص 583، مطبوعہ کوئٹہ)

   نابالغ صدقہ یا ہبہ کرے تو اس کا یہ تصرف باطل ہے،  ولی کی اجازت پر موقوف نہیں ہوگا۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ "جامع الصغار" کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:”لو ان الصبی طلق او وھب او تصدقاو باع بمحاباۃ فاحشۃ او اشتریٰ باکثر من قیمتہ قدر مالا یتغابن الناس فی مثلہ۔۔۔۔  فھذہ العقود کلھا باطلۃ لا تتوقفیعنی اگر بچے نے طلاق دی یا ہبہ کیا یا صدقہ کیا یا بہت زیادہ سستا فروخت کیا یا اتنی زیادہ قیمت پر خریدا جس میں لوگ دھوکہ نہیں کھاتے  تو یہ تمام عقود باطل ہوں گے ، ولی کی اجازت پر موقوف نہ رہیں گے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 19، ص 637، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”باپ کو یہ جائز نہیں کہ نابالغ لڑکے کا مال دوسرے لوگوں کو ہبہ کردے اگرچہ معاوضہ لے کر ہبہ کرے کہ یہ بھی ناجائز ہے اور خود بچہ بھی اپنا مال ہبہ کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا یعنی اس نے ہبہ کردیا اور موہوب لہ کو دے دیا ، اس سے واپس لیا جائے گا کہ ہبہ جائز ہی نہیں۔یہی حکم صدقہ کا ہے کہ نابالغ اپنا مال نہ خود صدقہ کرسکتا ہے نہ اس کا باپ۔۔۔۔۔۔ اگر والدین بچہ کو اس لیے چیز دیں کہ یہ لوگوں کو ہبہ کردے یا فقیر وں کو صدقہ کردے تاکہ دینے اور صدقہ کرنے کی عادت ہواور مال ودنیا کی محبت کم ہو تو یہ ہبہ وصدقہ جائز ہے کہ یہاں نابالغ کے مال کا ہبہ وصدقہ نہیں بلکہ باپ کا مال ہے اور بچہ دینے کے لیے وکیل ہے جس طرح عموماًدروازوں پر سائل جب سوال کرتے ہیں توبچوں ہی سے بھیک دلواتے ہیں۔ (بہارِ شریعت، ج 03، ص 81، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم