مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7596
تاریخ اجراء:14ربیع الاخر 1443ھ/20نومبر2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ تین
اوقاتِ مکروہہ میں نماز ِجنا زہ پڑھنا اور تدفین کرنا کیسا؟نیز
صحیح مسلم کی حدیث
پاک جس میں اوقاتِ مکروہہ
میں تدفین کے متعلق ہے:’’ كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ينهانا أن نصلي فيهن، أوأن نقبر فيهن موتانا ‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جنازہ ، جنازہ گاہ میں پہلے سے تیار موجود تھا اور اتنی تاخیر کی گئی کہ مکروہ وقت شروع
ہوگیا ، تو اب مکروہ وقت میں نمازجنازہ اد اکرنا مکروہ تحریمی ہے، لیکن اگر میت
کو جنازہ گاہ میں لایا ہی مکروہ وقت
میں گیا ، تواس صورت میں بلاکراہت
نمازِ جنازہ پڑھناجائز ہے، جبکہ تدفین مکروہ
اوقات میں بھی کی جاسکتی ہے،
شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اورجہاں تک
حدیث پاک میں
موجود الفاظ” أوأن نقبر فيهن موتانا “کی بات ہے ، تواس سےمراد ”میت
پر نمازِ جنازہ پڑھنا“ہے ، تدفین
کرنا نہیں ، کیونکہ درحقیقت حدیث
پاک میں ”نقبر“کو جنازہ پڑھنے سے بطورِ کنایہ استعمال کیا گیا ہےاور
اس بات کی تائید ایک دوسری حدیث پاک سےہوتی ہےجس میں فرمایا
گیا کہ ”نھاناأن نصلي على موتانا“یعنی رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نےہمیں ان
اوقات میں اپنے مُردوں پرنمازِ(جنازہ)پڑھنے سےمنع فرمایا، لہٰذااس سےپتاچلا کہ حدیث پاک میں تدفین مرادنہیں
ہے۔
مکروہ وقت میں جنازہ
آئے ، تو بلاکراہت نماز پڑھنا
جائز ہونے کے متعلق علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:” فلو وجبتافيهالم
يكره فعلهما:أي تحريماوفي
التحفةالأفضل أنلا تؤخرالجنازة “ ترجمہ:
اوراگر نمازِ جنازہ وسجدہ تلاوت مکروہ وقت میں
واجب ہوں،تو ان کو اسی وقت
میں ادا کرنا مکروہ تحریمی
نہیں اورتحفۃ الفقہاء میں
ہےکہ( مکروہ وقت میں جنازہ
حاضر ہو) تو مؤخر نہ کرنا افضل ہے۔
مذکورہ بالا
عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی
حَنَفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے
ہیں: ”(قولہ
ای تحریما) افاد
ثبوت الکراھۃ التنزیھیۃ
(قوله:وفي التحفة إلخ)هوكالاستدراك
على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا
كراهة أصلا،وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح
والمعراج لحدیث:ثلاث لایؤخرون،منھا
الجنازۃ اذا حضرت وقال في شرح المنية: والفرق
بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر، لأن التعجيل فيهامطلوب
مطلقا إلالمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة
عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه “ترجمہ:شارح
کا ”تحریما“کہنا
اِس مسئلہ میں کراہت تنزیہی کو ثابت کرتا
ہے، (لیکن پھر فوراً بعد)” تحفۃ الفقہاء“ کا جملہ نقل
کرنا، دراصل ”تحریما“والے
لفظ سے پیداہونے والے
مفہوم سے استدراک ہے، کیونکہ
تحفۃ الفقہاء کی
عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جب جنازہ
میں تاخیرنہ کرنا افضل ہے،تواصلاًکراہت
رہے گی ہی نہیں (یعنی کراہتِ
تنزیہی بھی نہیں) اور
جو قول” تحفۃ الفقہاء “ میں نقل کیا
گیا ہے، اِسی کو ”بحر الرائق، نہر الفائق،
فتح القدیر اور معراج الدرایۃ“
میں برقرار رکھا ہے،
اس حدیث پاک کی وجہ سےکہ تین
کاموں کو مؤخرنہ کیا جائے،ان میں سے ایک جنازہ
ہے کہ جب حاضر ہو چکا ہواورمنیہ
کی شرح میں فرمایا:اورنمازِ جنازہ اورسجدہ تلاوت
میں فرق یہ ہےکہ نمازِ جنازہ میں جلدی کرنا
مطلقاً(شریعت کو)مطلوب ہےمگریہ کہ
کوئی مانع موجود ہو (جیسے)اس کامباح وقت میں حاضر ہوجانا،مکروہ
وقت(تک موخرکر کے)پڑھنے سے
مانع ہے،بخلاف اس کے کہ جنازہ
مکروہ وقت میں حاضر ہو ( کہ اس میں اصلاً کراہت
نہیں)۔(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ،
جلد2، صفحہ43،مطبوعہ
کوئٹہ)
مذکورہ
بالا دونوں جزئیات کا خلاصہ یہ ہےکہ مکروہ وقت
میں جنازہ آ جائے، تو
اُسے مؤخر نہ کرنا افضل ہے، یعنی اُسی
مکروہ وقت میں ادا کر لینا چاہئے۔ مکروہ وقت میں ادا کرنا مکروہِ تحریمی تو کیا ، تنزیہی
بھی نہیں ہے، جیسا کہ علامہ
شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے
واضح الفاظ میں بیان کیا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ مکروہ وقت میں جنازہ آجا ئے ،تو بلاکراہت جنازہ کی ادائیگی کا قول دیگر فقہا نے اپنی کتب میں برقرار رکھا ہے۔
سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ
سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے
ہیں: ”نمازِ
جنازہ ہر وقت مشروع ہے یہاں تک کہ تینوں اوقات مکروہہ
میں بھی، اگر اُسی وقت آیا
ہو۔“(فتاویٰ رضویہ،
جلد11، صفحہ185، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں: ”اگر
مکروہ وقت مثلاً :آفتاب غروب ہونے
سے دس منٹ پیشتر جنازہ لایا گیا، تو
اسی وقت پڑھیں، کوئی کراہت نہیں، کراہت اُس صورت
میں ہے کہ پیشتر سے تیار
موجود ہے اور تاخیر کی، یہاں تک
کہ وقتِ کراہت آ گیا۔“ (فتاویٰ
فیض الرسول، جلد1، صفحہ443، مطبوعہ
شبیر برادرز، لاھور )
صحیح
مسلم کی حدیث پاک
اور اس کی توجیہ:
صحیح
مسلم میں ہے:”عن عقبة بن عامر الجهني،يقول:ثلاث ساعات كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم
ينهانا أن نصلي فيهن،أوأننقبر فيهن موتانا:حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع،وحين
يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس،وحين تضيف الشمس
للغروب حتى تغرب “ ترجمہ:حضرت عقبہ
ابن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنےاور
میت پر نماز جنازہ پڑھنے
سے منع فرماتے تھے، جب سورج چمک کر طلوع ہورہا ہویہاں تک کہ بلند
ہوجائے اور جب ٹھیک دوپہر
قائم ہویہاں تک کہ سورج
ڈھل جائے اور جب سورج ڈوبنے کے قریب
ہوجائے حتی کہ ڈوب جائے ۔(الصحیح لمسلم،باب
الاوقا ت التی نھی عن الصلوۃ فیھا،جلد 1،صفحہ 276،مطبوعہ
کراچی)
”ان نقبر فیھن موتانا“
سے مراد تدفین نہیں، بلکہ جنازہ پڑھنا ہے، جیساکہ علامہ بدرالدین
عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:”وقال ابن المبارك:معنى هذا
الحديثأننقبر فيهن موتانا، يعني:الصلاة على الجنازة،وهو قول
أحمد وإسحاق“ ترجمہ:امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ حدیث پاک میں موجود الفاظ”أن نقبر فيهن موتانا“ سے مرادنمازِجنازہ ادا کرنا ہےاور
یہی قول امام احمد اور امام اسحاق کا ہے۔ ( عمدۃ
القاری،باب سنة الصلاة علي
الجنازة ،جلد 8،صفحہ 179،دار الكتب العلميه ، بيروت)
علامہ علی قاری
حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے
ہیں:”والمذهب عندنا أن هذه
الأوقات الثلاثة يحرم فيها الفرائض والنوافل، وصلاة الجنازة، وسجدة التلاوة إلا
إذا حضرت الجنازة أو تليت آية السجدة حينئذ، فإنهما لا يكرهان “ ترجمہ: ہم احناف کا مذہب یہ ہےکہ ان تین اوقات میں
فرائض و نوافل اور نماز ِجنازہ اورسجدہ
تلاوت حرام ہے ، مگر
یہ کہ جب نماز جنازہ آئے ہی اس
وقت میں یا آیت ِسجدہ
اسی وقت میں پڑھی ہو ،تویہ مکروہ نہیں ۔ (مرقاۃ
المفاتیح، باب اوقات
النھی،جلد3،صفحہ112،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ
،بیروت)
مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:”تمام علماء کے نزدیک
یہاں دفن سے مراد نماز جنازہ ہے ، کیونکہ ان وقتوں میں
دفن کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا اور ان
اوقات میں نماز جنازہ بھی جب ہی
مکروہ ہوگی جب کہ جنازہ پہلے
سے تیار ہو اور نماز میں دیر کی جائے ۔“(مراۃ
المناجیح،جلد2،صفحہ143 ،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
تبیین
الحقائق ،بدائع الصنائع وغیرہما کتبِ فقہ میں
ہے، واللفظ
للبدائع:”والمراد من قوله: أننقبر فيها
موتانا الصلاة على الجنازة دون الدفن إذ لا بأس بالدفن في هذه الأوقات “ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمانأننقبر۔۔۔سے
مراد میت پرنماز جنازہ پڑھناہے ، نہ کہ دفن کرنا ،کیونکہ ان اوقات
میں دفن کرنے میں حرج نہیں ۔(بدائع الصنائع ،فصل بيان ما
يكره في صلاة الجنازة،جلد2،صفحہ 349،مطبوعہ کوئٹہ)
علامہ شُرُنبلالی
حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے
ہیں:”والمراد بقولهأن نقبر:صلاة
الجنازة، إذ الدفن غيرمكروه فكنى به عنها للملازمة
بينهما وقد فسر بالسنة: نهانا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أن نصلي على موتانا
عند ثلاث الخ “ ترجمہ: ” أن نقبر“سےمراد نماز جنازہ
ہے ،کیونکہ ان اوقات
میں دفن کرنا مکروہ نہیں ،دفنانے کو نمازجنازہ کےلیےبطورِ کنایہ ذکرکیا ہے،کیونکہ یہ دونوں
ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں اور حدیث پاک کی اس معنی کے ساتھ تفسیر (دوسری )حدیث سےہوتی ہے(جس میں فرمایا):کہ
رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں تین اوقات میں اپنےمُردوں
پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔(مراقی
الفلاح شرح نور الایضاح، فصل
فیما یفعلہ المقتدی
بعد فراغ امامہ، صفحہ114، مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ