Kafir Ghair Muslim Bank Se Qarz Lena Kaisa Hai?

کافر بینک سے قرض لینا کیسا ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1857

تاریخ اجراء:14محرم الحرام1445ھ/02اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا کافروں کےکسی بینک سے(جس میں کسی مسلمان کا شئیر نہ ہو)لون یعنی قرض لیا جاسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بینکوں سے ملنے والا  قرض ،چونکہ سودی قرض  ہوتا ہے اور سودی قرض لینا ،ناجائز و حرام ہے، چاہے وہ مسلم بینکوں سے ہو یا خالص کفار کی بینکوں سے۔احادیث مبارکہ میں سود دینے اور لینے والے دونوں  پر لعنت فرمائی گئی ہے۔لہذا خالص کفار کے بینکوں سے بھی سودی قرض لینا جائز نہیں۔

   صحیح مسلم شریف کی حدیث ِمبارکہ ہے:’’عن جابر رضی اللہ عنہ قال:لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربا و موکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء‘‘ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، سودکھلانے والے،سود لکھنے والے اور سود  کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے  اور فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں) برابر ہے۔(صحیح مسلم،باب لعن اکل الربا وموکلہ،صفحہ 671،حدیث: 4093، موسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

   سودی قرض لینا،ناجائز و حرام ہے،جیسا کہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے  فتاوی رضویہ میں جب سود پر قرض لینے کے متعلق سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’سود  جس طرح لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد 17،صفحہ298،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   کافر کو سود دینے کے متعلق،امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ،فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’سود دینا اگرچہ کافر کو ہو قطعاً حرام و استحقاق نار ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ ،جلد17،صفحہ335،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی فیض الرسول میں ارشاد فرماتے ہیں:’’بینک سے قرض لے کر اسے زائد رقم دینا ممنوع ہے اگرچہ وہ بینک خالص کافروں کا ہو۔‘‘(فتاوی فیض الرسول،جلد2،صفحہ344،اکبر بک سیلرز، لاہور  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم