Jis Se Qarz Liya Wo Na Mil Raha Ho To Kya Kare ?

جس سے قرض لیا،وہ نہ مل رہاہوتوکیاکرے؟

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2203

تاریخ اجراء: 07جمادی الاول1445 ھ/25نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   تقریباً پندرہ سال پہلے میں نے ایک بندہ سےایک لاکھ روپیہ ادھارلیاتھا،اب وہ بندہ بالکل نہیں ملتا،اس کے گھر کابھی پتانہیں،اب میں کیاکروں؟وہ پیسےنفلی صدقےمیں دوں یا زکوۃ میں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فی زمانہ کسی شخص کو تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں، نمبر وغیرہ ہوتے ہیں، یونہی اس کے اقارب کا علم ہوتا ہے، آبائی علاقہ معلوم ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ  ،آپ کوچاہیے کہ  آپ  حتی الامکان اصل مالک کو تلاش کریں ، وہ فوت ہوچکا ہویااس کاکوئی پتانہ چل رہاہو تو اس کے ورثاء کو تلاش کرکےان تک پہنچائیں۔ البتہ! اگر واقعی  اچھے انداز سے تلاش کرنے کے باوجود وہ نہیں ملتا، نہ اس کے ورثاء کا  کچھ پتا چل رہا ہو اور آئندہ ملنے کی امید بھی نہ ہو تو اس صورت میں آپ وہ رقم   کسی شرعی فقیر مستحق زکوۃ مسلمان پر اس کی طرف سے جبکہ وہ مسلمان ہو صدقہ کردیں۔

   اوریہ خوب   یاد رہے کہ! صدقہ کرنے کے بعد اگر وہ شخص مل جاتا ہے اور اس صدقہ پر راضی نہیں ہوتا تو اسے اس کی رقم دینی ہوگی ۔

   دین اجرت سے متعلق سوال کے جواب میں سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :اسٹیشن پر جانے والی گاڑیاں اگر کوئی مانع  قوی نہ ہو تو ہر گاڑی کہ آمد و رفت پر ضرور آتی  جاتی ہیں۔ اگر زید اسٹیشن پر تلاش کرتا ، ملنا آسان تھا، اب بھی خود  یا بذریعہ کسی متدین معتمد کے تلاش کرائے ، اگر ملے ،دے دئے جائیں، ورنہ جب یاس و نا امیدی ہوجائے ، اس کی طرف سے تصدق کردے، اگر پھر کبھی وہ ملے اور اس تصدق پر راضی نہ ہو، اسے اپنے پاس سے دے۔ کما ھو شان اللقطۃ و سائر الضوائع۔( جیسا کہ لقطہ اور دیگر گری پڑی اشیاء کا حال ہوتا ہے۔) (فتاوی رضویہ، ج 25، ص 55، مطبوعہ :رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

   فتاوی فقیہ ملت میں سوال ہو اکہ :"زید نے بکر سے ایک سو  پچاس روپے قرض لئے۔ پھر بکر لاپتہ ہوگیا ، اسے بہت تلاش کیا گیا   مگر سراغ نہ ملا تو اب زید قرض سے کس طرح بری الذمہ ہو؟"

    اس کے جواب میں مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : جب یہ پتہ نہیں چل رہا  ہے کہ بکر کہاں چلا گیا ۔ اس صورت میں اگر اس کے کسی وارث کا سراغ مل سکے تو رقم مذکور  اس کے سپرد کردیں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو بکر کو ثواب ملنے کی نیت سے ایک سو پچاس روپئے ، صدقہ کردیں، اس طرح زید قرض سے بری الذمہ ہوجائے گا۔      "(فتاوی فقیہ ملت، ج 2، ص 201، مطبوعہ :شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم