مجیب:ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی
مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:Har-5086
تاریخ اجراء:13جمادی الثانی 1442ھ/27جنوری2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس
مسئلے کے بارے میں کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی کی جانب سے کم اور
متوسط آمدنی والے افراد کو گھر فراہم کرنے کے لئے ایک ہاؤسنگ فنانس
اسکیم کا آغاز کیا گیا،جس میں مکان،فلیٹ کی
تعمیر اور خریداری کے لیے تقریباً پینتالیس لاکھ
(4500000)تک کا قرضہ دیا جارہا
ہےاور واپسی کی مدت بیس سال تک ہے اور اس قرضہ کا بارہ
فیصد ریٹ مقرر کیا گیا ہے جو قرضہ لینے والے کو اضافی ادا کرنا
ہوگا۔مثال کے طور پر کسی نے کمپنی سے دس لاکھ روپے لیے
ہیں تو اسے ایک لاکھ بیس ہزار(120000)روپے اضافی
دینے ہوں گے۔اس اسکیم کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟
کیا ہم اس اسکیم کے تحت قرض
لے سکتے ہیں یا
بِسْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ اسکیم،سودی اسکیم ہے کہ
کمپنی کی جانب سے مقرر کردہ اضافی بارہ فیصد، قرض پر مشروط
نفع ہے اوربحکم حدیث قرض پر مشروط نفع ،سود ہے اورجس طرح سود لینا،
حرام ہے یو
رہائش کے لئے ایک ایسا مکان کہ جس میں سردی
،گرمی وغیرہ امور سے حفاظت ہوسکے انسانی حاجات میں سے ہے
، تو اگر کسی کے پاس رہائشی مکان
سود کی
مذمت کے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں
حدیث پاک میں ہے:”لعن رسول
قرض پر کسی قسم کا نفع شرط ٹھہرالینا سود اور سخت حرام و گناہ
ہے۔چنانچہ حدیث پاک میں ہے:” کل قرض جر منفعۃ فھو
ربا“ہر قرض جو نفع لائے وہ سود ہے۔ (کنزالعمال،جلد 6، صفحه 99،مطبوعہ ، لاھور)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:”عن ابن
سیرین:اقرض رجل رجلاً خمسین مائۃ درھم و اشترط علیہ
ظھر فرسہ فقال ابن مسعود: ما اصاب من ظھر فرسہ فھو ربا“ابن
سیرین (رحمۃ
درمختار میں ہے:”و فی الاشباہ : کل قرض جر نفعاً حرام فکرہ
للمرتھن سکنی المرھونۃ باذن الراھن “الاشباہ و
النظائر میں ہے: ہر قرض جو نفع کھینچے وہ حرام ہے لہذا مرتہن کے لئے
مرہو
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ
الرحمۃ نے ارشاد فرمایا:”وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس
کا استحقاق قرار پایا ہو،سود ہے ۔ مثلا سو(100) روپے قرض دئے اور
یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100)لے گا تو یہ پیسہ
عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود،حرام ہے ۔“(فتاوٰی
رضویہ ، جلد 17، صفحہ 326، مطبوعہ
رضا فاونڈیشن، لاھور)
مجبوری کی صورت میں سود،دینے کے متعلق تفصیل
بیان کرتے ہوئے سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان
علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” سود جس طرح لینا حرام ہے
،دینا بھی حرام ہے ۔ مگر شریعت مطہرہ کا قاعدہ مقررہ ہے کہ الضرورات تبیح المحظورات،
اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ
محتاج کو سودی قرض لینا جائز ہے۔ اقول:محتاج کے یہ
معنی جو واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ
ایک اور مقام پر سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا
خان علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں :”سود دلینا، مطلقاً عموماً قطعاً سخت کبیرہ ہے اور سود
دینا اگر بضرورت شرعی و مجبوری ہو تو جائز ہے ، ہاں بلاضرورت
جیسے بیٹی بیٹے کی شادی یا تجارت بڑھانا، یا پکا مکان بنانے کے لئے
سودی روپیہ لینا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ،
جلد 17، صفحه 359، مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
رہنے کا مکان حاجت میں شامل ہے،اس کے متعلق سیدی اعلی
حضرت امام احمد رضا خان فرماتےہیں:”حاجت یہ کہ بے اس کے ضرر
ہو،جیسے مکان اتنا کہ گرمی ،جاڑے برسات کی تکلیفوں سے بچا
سکے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 1 ، حصہ ب، صفحه844 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
، لاھور)
ضروری تنبیہ ! حاجت شرعیہ
کی پہچان، عوام کے لئے کم علمی کی
وَ
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ