Current Account Me Makhsoos Raqam Ki Bunyad Par Mashroot Fawaid Dena Soodi Nafa Hai

کرنٹ اکاؤنٹ میں مخصوص رقم کی بنیاد پر  مشروط فوائد دینا سودی نفع ہے

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0069

تاریخ اجراء:10ربیع الاول1445ھ/26ستمبر2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں   کہ آج کل بینک اکاؤنٹ کااستعمال وقت کی ضرورت بن گیاہےاورمختلف قسم کےاکاونٹس بھی متعارف کرواۓجارہے ہیں۔ایک نجی (Private) بینک نے بھی کاروباری طبقہ کے لئے" اختیار اکاؤنٹ " کے نام سے ایک اکاؤنٹ متعارف کروایاہے۔

    جس کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:

·                  اکاؤنٹ ہولڈر(Account Holder) کو  انشورنس  (Insurance)کی سہولت دی جائے گی۔ یعنی اگر اکاؤنٹ ہولڈر کی حادثاتی موت (Accidental Death) ہوجاتی ہے تو شرائط و ضوابط پوری ہونے کی صورت میں بینک  1 ملین تک کی مالی امداد مرنے والے اکاؤنٹ ہولڈر کے ورثا (Inherits)  کودے گا۔

·                  ہر ماہ اکاؤنٹ میں5000 کی رقم ہوگی تو 50 روپے سروس چارجز (Service Charges)نہیں لئے جائیں گے۔

·                  ہر ماہ  اکاؤنٹ میں25000 رقم ہوگی  تو سالانہ پے پاک ڈیبٹ کارڈ فیس (Pay Pak Debit Card Fee) 1500روپے بھی نہیں کاٹے جائیں گے،اور اگر 25000 سے رقم کسی بھی مہینے میں  کم ہوگئی تو  1500 روپے ڈیبٹ کارڈ فیس(Debit Card Fee) لی جائے گی۔

·                  ہر ماہ 25000 روپے اکاؤنٹ میں موجود ہونے کی صورت میں چیک بک (Cheque Book)فری (Free)ہوگی۔

   مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا  یہ اکاؤنٹ کھلوانا، جائز ہے؟کیونکہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ (Current Account) ہے،جس میں کسی قسم کا سود نہیں ملتا۔مدلل (With Proof)جواب دیتے ہوئے رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بینکوں کے کرنٹ اکاونٹ  (Current Account)میں جو رقم رکھوائی جاتی ہے،  اس کی  حیثیت قرض (loan)کی ہوتی  ہے۔اورقرض پر مشروط نفع (Conditional Benefit)دینا سود ہے خواہ وہ نفع رقم کی صورت میں ہو یا کہ کسی اور مادی چیز (Tangible item)یا کسی منفعت  کی صورت میں ہو ۔لہذا قوانین شرعیہ کی روشنی میں یہ اکاؤنٹ کھلوانا ، جائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں مختلف طرح کے فوائد (Benefits) رقم کے مختلف فگر(Figure) سے مشروط کیے گئے ہیں کہ اکاونٹ میں اتنی رقم ہوئی تو یہ مشروط نفع((Conditional Benefitملے گا اور اتنی ہوئی تو یہ مشروط نفع  ملے گا ،   یہ سب سودی معاملہ ہے ۔نیز انشورنس (Insurance)بھی ایک سودی پروڈکٹ ہے ، اس سے اجتناب ( یعنی بچنا ) بھی   ضروری ہے ۔

   جومشروط نفع قرض کی بنیاد پر دیا جائے وہ سود ہے ۔حدیث شریف میں ہے:”كل قرض جر منفعة فهو ربا۔“یعنی قرض کی بنیاد پر  جونفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔ (کنزالعمال،حدیث 15516،   جلد6،صفحہ238، بیروت)

   بینکوں کے کرنٹ اکاونٹ  میں جو رقم رکھوائی جاتی ہے، اس کی حیثیت(Status) قرض کی ہے۔علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ قرض کی تعریف  کے متعلق در مختار میں لکھتے ہیں:”شرعا:ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه۔“یعنی شرعی اعتبار سے قرض وہ مثلی مال ہے جسے تم  اس جیسا واپس حاصل کرنے کی غرض سے دیتے ہو۔ ( در مختار،جلد5،صفحہ161،مطبوعہ بیروت)

   اختیار اکاؤنٹ  ہولڈر اپنے دیئے ہوئے   قرض کی بنیاد پر کئی  قسم کے مشروط منافع حاصل کرتا ہے اور یہ جائز نہیں ہے ۔علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:”إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم۔“یعنی  قرض دینے والے  کا  مقروض کی  کسی  چیز سے نفع اٹھانا حلال نہیں ہے اگرچہ رہن رکھوا کر  قرض لینے والے کی اجازت سے ہو کیونکہ اس کا اجازت دینا سود کی اجازت دینا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ جب  قرض لینے والا  اپنا  قرض مکمل وصول کرے گا   تو  حاصل ہونے والی  منفعت اس کے لئے  (عوض سے خالی ) اضافہ ہے جو کہ سود قرار پایا اور یہ بہت سخت کام ہے۔ (  رد المحتار،جلد5،صفحہ166،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے قرض کی بنیاد پر مرہون شے سے نفع حاصل کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ” کسی طرح جائزنہیں۔“(  فتاوی رضویہ،جلد25،صفحہ217،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:”یوہیں(قرض دینےوالا) کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے۔ “(بہار شریعت،جلد2،صفحہ759،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم