Boli Wali Committee Ka Shari Hukum

 

بولی والی کمیٹی کا شرعی حکم

مجیب:محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7515

تاریخ اجراء: 21ربیع الثانی1446ھ/25اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بولی والی کمیٹی کا شرعی حکم کیا ہے؟ہمارے ہاں اس کا طریقہ یہ ہے کہ کمیٹی میں شامل ہونے والے افراد ہر ماہ ایک جگہ جمع ہوکر کمیٹی ہولڈر کو رقم جمع کرواتے ہیں،پھر اسی جگہ  بولی لگتی ہے،جو ممبر سب سے کم بولی لگاتا ہے،اسے اتنی کمیٹی دے کر  بقیہ رقم دیگر ممبران میں تقسیم کر دی جاتی ہے،مثلاً 10 لاکھ  کی کمیٹی ہے اور 9لاکھ بولی لگی،تو 9لاکھ بولی لگانے والے کو دے کر 1لاکھ ممبران میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، لیکن کمیٹی لینے والے کو  ہر ماہ کمیٹی  جمع کروا کر  10لاکھ  پورے کرنے ہوتے ہیں،یعنی  رقم وہ کم لیتا ہے،لیکن ادائیگی زیادہ کرتا ہے۔البتہ کمیٹی ہولڈر اور آخر میں لینے والے دونوں کو بغیر بولی کے پوری کمیٹی ملتی ہے، ہاں  ان کو بھی بقیہ ممبران کی کمیٹی سے اضافی رقم ملتی رہتی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ  ہر  ممبر اپنی مرضی سے کم بولی لگا کر بقیہ رقم  چھوڑتا ہے،لہذا بقیہ ممبران کیلئے وہ  رقم جائز ہے۔براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ ایسی کمیٹی شروع کرنا کیسا ،اگر کسی نے کر لی ہو اور اضافی رقم بھی لے چکا ہو،تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بولی والی کمیٹی خالصتاً سود ی معاملے پر مشتمل ہے،لہٰذا اسے شروع کرنا سخت ناجائز،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ تفصیل  کچھ اس طرح ہے کہ  کمیٹی لینے والے شخص کے پاس اپنی  جمع کروائی ہوئی  رقم کے علاوہ بقیہ سب رقم  قرض کے طور پر ہوتی ہے اور قرض کا اصول یہ ہے کہ جتنی رقم قرض  میں دی جائے، اتنی ہی واپس لینا طے ہو،اگر اس سے زیادہ لینے کی شرط ہو، جیسا کہ پوچھی گئی صورت میں ہے،تو وہ  اضافہ سود ہوتا ہےاور سودلینا،دینا اور اس کا معاہدہ کرنا، سب حرام اور گناہ ہے،قرآن و حدیث میں اس پر سخت وعیدات بیان کی گئی ہیں۔

   اگر کسی نے یہ سودی کمیٹی شروع کر لی ہو،تو اس پر لازم ہے کہ اسے فوراً ختم کرے اور اللہ  تعالی کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرے،ورنہ مسلسل گناہ ملتا رہے گا۔نیز  اگر  اس طرح اضافی /سودی رقم حاصل کر لی ہو،تو اس کا  حکم یہ ہے کہ جس سے لی،اسے واپس کی جائے یا بغیر ثواب کی نیت کے کسی شرعی فقیر پر صدقہ کر دی جائے،البتہ جس سے لی، اسے واپس کرنا بہتر ہے۔

   اوربعض افراد کا یہ کہنا کہ "پہلے کمیٹی لینے والا اپنی مرضی سے اضافی رقم چھوڑتا ہے،لہذا وہ بقیہ ممبران کےلئے جائز ہے"تو  یہ درست نہیں، کیونکہ سود  کو اللہ جبّار و قہار  نے  مطلقاً حرام قرار دیا ہے،اس میں کسی کی رضا و خوشی کو دخل نہیں،لہٰذا یہ کسی کی مرضی سے بھی جائز نہیں ہو سکتا،جیسے زنا و قتل باہم رضا مندی سے جائز نہیں ہو سکتے۔

   سود کی حرمت کے بارے میں اللہ تعالی  ارشاد فرماتا ہے :﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ ﴾ترجمہ:جو لوگ سود کھاتے ہیں ،وہ قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے،مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح ،جسےآسیب نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو،یہ سزا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے کہا:خریدوفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ،حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ۔ (پ3،س البقرہ،آیت275) 

   مزید ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً ۪ وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ:اے ایمان  والو!دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤاور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ 4،س اٰل عمران،آیت130)

   اسی بارے میں حدیثِ پاک میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکل الربو و موکلہ و کاتبہ و شاھدہ و قال:ھم سواء ‘‘ ترجمہ:نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسود کھانے والے،کھلانے والے ،اس کی کتابت کرنے والےاور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ،اور فرمایا: یہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں ۔(صحیح مسلم،ج2،ص27،مطبوعہ کراچی)

   اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سود کا ایک حبہ لینا حرامِ قطعی،کہ سود لینے والے پر اللہ عزوجل  و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہے۔صحیح حدیثوں میں فرمایا:’’الربا ثلثۃ و سبعون حوباً،ایسرھن کان یقع الرجل علی امہ‘‘یعنی سود کھانا تہتر گناہوں کا مجموعہ ہے،جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔(فتاوی رضویہ،ج17،ص390تا391،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   قرض کی تعریف کے بارے میں تنویر الابصار میں ہے:’’عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لاٰخر، لیرد مثلہ‘‘ترجمہ:مخصوص عقد جو دوسرےکومثلی مال دینے پر وارد ہو،تاکہ وہ(بعد میں )اس کی مثل واپس کرے۔(تنویر الابصار مع در مختار،ج7،ص406تا407،مطبوعہ پشاور (

   قرض پر مشروط نفع سود ہونے کے بارے میں نبی پاک   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا‘‘ترجمہ: ہر وہ قرض ،جو نفع کھینچے،تو وہ سود ہے ۔ (کنز العمال ،ج16،ص238،مطبوعہ ،مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

   اور سودی معاہدہ کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سودی دستاویز لکھانا سود کا معاہدہ کرنا ہے اور وہ بھی حرام ہے۔۔جب اس کا تمسک موجبِ لعنت اور سود کھانے کے برابر ہے، تو خود اس کا معاہدہ کرنا کس درجہ خبیث و بدتر ہے۔(فتاوی رضویہ، ج 6، ص 546،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   سودکے مال کا حکم بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’جو مال رشوت یا تغنی یا چوری سے حاصل کیا،اس پر فرض ہے کہ جس جس سے لیا،ان پر واپس کر دے،وہ نہ رہے ہوں،ان کے ورثہ کو دے،پتا نہ چلے تو فقیروں پر تصدق کرے،خریدوفروخت کسی کام میں اس مال کا لگانا حرام قطعی ہے،بغیر صورتِ مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کا نہیں۔یہی حکم سود وغیرہ عقودِ فاسدہ کا ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا،بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں،بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے،خواہ ابتداءً تصدق کر دے۔۔ ہاں!جس سے لیا،انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولیٰ ہے۔‘‘  (فتاویٰ رضویہ،ج23،ص 551تا552،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   سود کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے،یہ حق شرع ہے،اس میں بندے کی رضا کا اعتبار نہیں۔چنانچہ بدائع الصنائع میں بیع فاسد سے متعلق ہے:’’ لان فسادها لحق الشرع من حرمة الربا ونحو ذلك،فلا يزول برضا العبد ‘‘ ترجمہ : کیونکہ بیع فاسد کا فساد سود وغیرہ خرابیوں کے سبب حق شرع کی وجہ سے ہے،لہذا اس کا فساد بندے کے راضی ہوجانے کے سبب ختم نہیں ہو  گا۔  (بدائع الصنائع،ج1،ص186،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم