Bete Ya Bhai Se Qarz liya Ho Tu Kya Wapas Karna Lazim Hai ?

  بیٹے یا بھائی سے قرض لیاہو ، تو کیا   واپس کرنا لازم ہے؟

مجیب: ابو الرجا محمد نور المصطفی عطاری مدنی

مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Jtl-0739

تاریخ اجراء: 10 جمادی الاخری  1444 ھ/  03 جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے اپنے والد صاحب اور بھائی کو قرض دیا ہو ،تو کیا وہ ان پر واپس کرنا لازم ہو گا؟اس کے والد صاحب جو اگرچہ مالدار ہیں،مگر  یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بیٹے کا ہوتا ہے، وہ باپ کا ہوتا ہے۔ لہذا اسے قرض واپس کرنا لازم نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      سوال میں اس شخص کے والد صاحب کی طرف سے بیان کی گئی بات درحقیقت حدیث مبارک سے ماخوذ،اور بیٹے کے لیے یقینا سعادت کا باعث ہے۔ تاہم یہ حکمِ قضا نہیں ہے۔ از روئے قضا شریعت اسلامیہ کا اصول یہی ہے کہ اگر باپ محتاج نہ ہو، تو بیٹے کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیت سے کچھ بھی رکھنے کی اجازت نہیں۔ اس حکمِ شریعت کے پیش نظر مالدار باپ کا بیٹے کے قرض کی واپسی سے انکار ہرگز درست نہیں،بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ حکمِ شرع پر عمل کرتے ہوئے بیٹے کا پورا قرض واپس کر دے ۔

      جب باپ کا بھی یہ حکم ہے، تو بھائی پر بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ وہ ضرورشکریے کے ساتھ جلد اپنے اوپر احسان کرنے والے بھائی کا قرض واپس کرے۔ قرض ایک عمدہ نیکی اور اعلی درجے کا احسان و صدقہ ہے۔ حتی کہ اس میں عام صدقات سے بھی اٹھارہ گُنا زیادہ اجرو ثواب رکھا گیا ہے۔ تو اس نیکی و احسان کا بدلہ اچھے طریقے سے وقت پر قرض واپس کرنا، اور قرض دینے والے محسن کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ ورنہ یہ سخت ناسپاسی و احسان فراموشی اور اللہ تعالی کی بھی نا شکری ہو گی۔ جس پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیشی اور آخرت کی جوابدہی ہے۔

      البتہ باپ کو قرض دینے والا بیٹا یہ بات دیکھے کہ وہ آج جو کچھ ہے،اور دنیا و آخرت میں جو خوبی و نعمت بھی  وہ پائے گا، وہ سب اس کے والدین کے مرہون منت ہے کہ ان کو ہی اللہ تعالی نے اس کے وجود کا سبب بنایا، اور انہوں نے  کس طرح پال پوس کر اسے کچھ کمانے کے قابل بنایا،لہذا اس بات کے پیش نظر وہ سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے والد صاحب سے لطف و مہربانی کے ساتھ پیش آئے اور بخوشی ان سے قرض واپس نہ لے ،تو دنیا و آخرت میں اس کے اجر و ثواب کا ظاہر طور پر مشاہدہ کرے گا۔  نیز اپنے قریبی رشتے داروں خصوصاً ماں باپ اور بھائیوں بہنوں کے ساتھ صلہ رِحمی اعلی درجے کی طاعت و نیکی اور دنیا میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے کم از کم ان چار جزاؤں کے استحقاق کا باعث ہے: (1) عمر میں برکت،  (2) اولاد میں برکت، (3) رزق میں برکت، اور ( 4) بری موت سے حفاظت۔

         مسند امام احمد میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی  حدیث مبارک  میں فرمایا:”لاتعقن والدیک وإن أمراک أن تخرج من أھلک ومالک “ ترجمہ: خبردار ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا، اگر چہ وہ تجھے حکم دیں کہ اپنے جورو ، بچوں ، مال و متاع سب سے نکل جا۔(مسند أحمد، ج36، ص392، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

         یونہی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی معجم اوسط میں  روایت ہے: ”أطع والدیک وإن أخرجاک من مالک ومن کل شیئ ھولک“ ترجمہ: اپنے ماں باپ کا حکم مان اگر چہ وہ تجھے تیرے مال اور تیری سب چیزوں سے تجھے باہر کردیں۔(المعجم الأوسط، ج8، ص58، دار الحرمین، القاھرہ)

      اوپر مذکور روایات ذکر کرنے کے بعد امام اہلسنت، اعلی حضرت، شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” حکم سعادت تو یہ ہے، مگر بایں ہمہ (یعنی روایتوں میں اس سب ترغیب کے باوجود) قضاءً باپ بیٹے کی ملک جدا ہے۔ باپ اگر محتاج ہو ،تو بقدرِ حاجت بیٹے کے فاضل مال سے بے اس کی رضا واجازت کے لے سکتا ہے، زیادہ نہیں، اور یہ لینا بھی کھانے پینے، پہننے، رہنے کے لیے، اور حاجت ہوتو خادم کے واسطے بھی۔“(فتاوی رضویہ، ج18، ص315، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صحیح بخاری میں حدیث مبارک ہے: ”من أحب أن یبسطہ لہ في رزقہ و ینسأ لہ في أثرہ فیصل رحمہ ترجمہ: جسے یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت(کشادگی)کی جائے ، مال میں برکت ہو ، تو اُسے چاہیے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔ (صحیح البخاری، کتاب الأدب ، باب من بسط الخ، ج4، ص97، رقم الحدیث5986، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”من سرہ أن یمد لہ في عمر ہ، و یوسع لہ في رزقہ، و یدفع عنہ میتۃ السوئ، فلیتق اللہ و لیصل رحمہ '' رواہ عبداللہ ابن الإمام في زوائد المسند و البزار بسند جیّد و الحاکم في المستدرک عن أمیر المؤمنین علي کرم اللہ تعالٰی وجھہ ترجمہ: جسے یہ بات خوش ہو کہ اُس کی عمر دراز ہو، اور رزق میں کشادگی ہو، اور بری موت دور ہو، تو اُسے چاہیے  کہ اللہ عزوجل سے ڈرے، اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرے۔(الترغیب و الترھیب، کتاب البر و الصلۃ ، باب الترغیب في صلۃ الرحمي، ج3، ص227، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   امام طبرانی کی معجم اوسط میں مروی ہے: ”إن أعجل البر ثوابا لصلۃ الرحم حتی أن أھل البیت  لیکونون فجرۃ فتنموا أموالھم و یکثر عددھم إذا تواصلوا “ ترجمہ: بے شک سب نیکیوں میں جلد تر ثواب پہنچنے والی صلہ رحمی ہے۔ یہاں تک کہ گھروالے فاسق بھی ہوں، تب بھی  ان کے مال زیادہ ہوتے ہیں، اور ان کے شمار بڑھتے ہیں، جب آپس میں صلہ  رحمی کریں۔(المعجم الأوسط ، من اسمہ احمد ، ج1، ص307 ،  رقم الحدیث 1092، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم