مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری
مدنی
فتوی نمبر:Web-1185
تاریخ اجراء: 12جمادی الاول1445 ھ/27نومبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بینک میں زیور گروی رکھواکر
بھی عموماً قرض سود پر ہی لیا جاتا ہے اور سود پر قرض
لینا بلا حاجت شرعی حرام ہے چاہے زیور گروی رکھواکر
ہی لیا جائے۔
سود کی مذمت کے
متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ عزوجل نے ارشاد
فرمایا : ” وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ
الرِّبٰوا“ترجمہ کنزالایمان:”اور اللہ نے حلال کیا
بیع کو اور حرام کیا سود ۔ “(القرآن،
پارہ03، سورۃ البقرۃ، آیت: 275)
حدیث پاک میں
ہے:”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
آکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ “اللہ
کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود
کھلانے والے،اس کے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر
لعنت فرمائی ہے۔(الصحیح لمسلم،جلد
2،صفحه 27،باب الربا،مطبوعہ کراچی)
قرض پر کسی قسم کا
نفع شرط ٹھہرالینا سود اور سخت حرام و گناہ ہے۔چنانچہ حدیث پاک
میں ہے:” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ہر قرض
جو نفع لائے وہ سود ہے۔(کنزالعمال،جلد 6، صفحه
99،مطبوعہ ، لاھور)
سیدی
اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہواور معاہدہ میں اس کا
استحقاق قرار پایا ہو، سود ہے ۔ مثلاً سو(100) روپے قرض دئیے
اور یہ ٹھہرالیا کہ پیسہ اوپر سو (100)لے گا تو یہ
پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود،حرام ہے ۔“(فتاوٰی
رضویہ ، جلد 17، صفحہ 326، رضا فاونڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرض پر اضافی رقم لینے کا حکم؟
اگر سونا ادھار لیا ، تو کیا واپس بھی سونا ہی دینا لازم ہے یا نہیں؟
خودمیت کا قرض ادا کردیا ،اب ترکہ میں سے لے سکتا ہے؟
قرض ختم ہونےپر اضافی قسط بطور فنڈ لینا جائز ہے یانہیں؟
کیا بینکوں سے قرض لینا جائز ہے؟
کیا قرض حسنہ واپس کرنا ضروری ہے؟
قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سود کا ایک مسئلہ