سود کا ایک مسئلہ

مجیب: مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ فروری/مارچ 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دوست کو مکان خریدنے کے لیے 4لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ وہ مجھ سے یہ رقم بطور قرض مانگ رہا ہے۔اس نے مجھے یہ آفر کی ہے کہ مکان خریدنے کے بعد جب تک  میری مکمل رقم واپس نہیں کردیتا اس مکان کا نصف کرایہ مجھےدیتا رہے گا ۔یہ فرمائیں کہ کیا  اس شرط کے ساتھ قرض کا لین دین کرنا جائز ہے؟

(سائل:محمد ندیم سولجر بازار،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آپ جو رقم دیں گے وہ قرض ہے اور کرائے کی مَد میں حاصل ہونے والی رقم اس قرض پرمشروط نفع ہے  اور ہر وہ قرض جو نفع لائے اسے نبیِّ پاک  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سود قرار دیا ہے ۔لہٰذا پوچھی گئی صورت سودی مُعاہدہ ہونے کی وجہ سے  ناجائز، حرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہے ہرگز ہرگز اس اشدّ گناہ والے مُعاہدہ سے دور رہیں دوست کو بھی سمجھائیں کہ وہ اپنے ارادہ سے باز آئے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم