ماں کا اپنی نابالغ اولاد کا مال بطورِ قرض لینا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs-1651

تاریخ اجراء:19ذیقعدۃ الحرام1440ھ/23 جولائی2019

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک نابالغہ بچی کی مِلک میں کچھ سونا ہے ،اس کی والدہ چاہتی ہے کہ یہ  سونا اپنی بڑی لڑکی کو اس کی شادی میں دے دے اور بعد میں اسی وزن کا سونا بنوا کر نابالغہ بیٹی کو واپس دے ،کیا وہ اس طرح کر سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیان کی گئی صورت میں نابالغہ بچی کا سونا دوسری بیٹی کو دینا ماں کے لیے جائز نہیں اگر چہ ماں کایہ ارادہ  ہو کہ بعد میں اتنا سونا نابالغہ بیٹی کو واپس لوٹا دے گی ، کیونکہ ماں کواس طرح نابالغہ بچی کے مال میں تصرف کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ حقيقت ميں یہ صورت ماں کی طرف سے بچی کا مال قرض لینے کی ہے اور حکم شرعی یہ ہے کہ  نابالغ بچہ  اپنا مال کسی کو قرض نہیں دے سکتااور نہ ہی کوئی اس سے قرض لے سکتا ہےکہ قرض دینے میں بچے کافی الحال محض نقصان ہے اور جس کام میں بچے کو محض نقصان ہو،وہ کام  اس کا ولی بھی نہیں کر سکتا ،تو ماں کو بدرجہ اولیٰ اجازت نہیں ہے ، البتہ باپ مخصوص صورت میں  بچے کے مال میں قرض کے طور پر تصرف کر سکتا ہے ۔

    بچے کے مال میں ماں کو  تصرف کرنےکی ولایت حاصل نہیں، اس سے متعلق تنویر الابصارمع الدرالمختار میں ہے:’’ ثم القاضی او وصیہ دون الام او وصیھا ھذا فی المال‘‘ ترجمہ:پھر قاضی یا اس کا وصی بچے کا ولی ہے ،ماں یا اس کا وصی ولی نہیں ،یہ حکم  مال میں تصرف کا ہے۔

 (الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب المأذون،ج 9،ص255،مطبوعہ ملتان)

    بچے کاقرض دیناجائز نہیں ،اس سے متعلق عالمگیری میں ہے:’’لا یجو ز اقراض العبد التاجر  والمکاتب  والصبی و المعتوہ لانہ تبرع و ھولاء لا یملکون التبرع ‘‘ترجمہ:غلام تاجر ،مکاتب،بچہ اور معتوہ کا کسی کوقرض دینا جائز نہیں کہ قرض تبرع ہے اور یہ سب تبرع کرنےکے مالک نہیں  ۔

     (عالمگیری،کتاب البیوع،باب  فی القرض،ج3،ص206،مطبوعہ کراچی)

    جس تصر ف سےبچےکومحض نقصان ہو ،وہ اس کا ولی بھی نہیں کر سکتا،اس سے متعلق الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:’’و ان ضار کالطلاق و العتاق و الصدقۃ و القرض لا و ان اذن بہ ولیھما و کذا لاتصح من  غیرہ  کابیہ  و وصیہ و القاضی  للضرر‘‘ترجمہ:اور اگربچہ یا معتوہ ایسا  تصرف کریں،جس سے انہیں محض  ضررہو جیسے طلاق دینا،غلام آزاد کرنا،صدقہ کرنا یا قرض دینا ،تو یہ صحیح نہیں ہےاگر چہ ان کا ولی اس کی اجازت دے اور اسی طرح اگریہ تصرفات بچے کا غیرکرے جیسے اس کا باپ ،وصی یا قاضی ،تو  بھی درست نہیں ضرر کی وجہ سے ۔

(الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب المأذون،ج 9،ص253،مطبوعہ ملتان)

    ماں کو بچے کے مال میں تصرف کی اجازت نہیں ہے ، اس سے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’چچا اور بھائی اور ماں یا اس کے وصی کو ولایت نہیں ہے،تو بہن پھوپھی ،خالہ کو کیا ہوتی۔یہا ں مال کی ولایت کا ذکر ہے۔‘‘  

(بھار شریعت ،ج3،حصہ  15،ص 205،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

    بہار شریعت میں ہے:’’غلام تاجر ،اورمکاتب اور نابالغ اور بوہرا ،یہ سب کسی کو قرض دیں یہ ناجائز ہے کہ قرض تبرع ہے اور یہ تبرع نہیں کر سکتے ۔‘‘

 (بھار شریعت ،ج2،حصہ11،ص 785،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    جس تصرف سے نابالغ کو محض ضررہو ،وہ اس کا ولی بھی نہیں کر سکتا ،اس سے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’ضارمحض جس میں خالص نقصان ہو یعنی دنیوی مضرت ہو اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض ،غلام کو آزاد کرنا،زوجہ کو طلاق دینا۔اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اجازت دے تو  بھی نہیں کر سکتا بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تصرفات کو نافذ کرنا چاہے نہیں کر سکتا ۔اس کا باپ یا قاضی ان تصرفات کو کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں کر سکتے ۔‘‘

 (بھار شریعت ،ج3،حصہ 15،ص 204،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم