ضامن فوت ہوجائے ، تو قرض کا ورثاء سے مطالبہ کرنا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6690

تاریخ اجراء:19رجب المرجب1442ھ04مارچ 2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں ایک دوست کے قرض کی ضمانت دی تھی کہ اگر وہ قرض مقررہ وقت پہ ادا نہ کرے، تو میں ضامن ہوں۔والد صاحب کو کچھ اندازہ تھا کہ وہ قرض کی ادائیگی کے معاملے میں ٹھیک نہیں ہے، لیکن دوست نے اصرار کیا کہ اگر آپ ضمانت دیں گے، تو مجھے قرض مل جائےگا، تو ابو نے دوستی کی خاطر اس کی ضمانت دیدی تھی، اب قرض کی مقررہ تاریخ گزر چکی ہے، لیکن اس نے ابھی تک قرض ادا نہیں کیا، قرض خواہ نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ کے والد نے ضمانت دی تھی، ان کے انتقال کے بعد آپ اس معاہدے کو پورا کرتے ہوئے میر اقرض ادا کریں، تو کیا شرعی اعتبار سے  ہم اس معاہدے کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے یا نہیں؟ اور کیا قرض خواہ کا ہمارے والد کی ضمانت کو بنیاد بنا کر ہم سے قرض کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟

     (2) میرے ایک دوست نے بہار شریعت کا جزئیہ بھیجا تھا، اس کی عبارت یہ ہے کہ ’’ اگر کفیل مر گیا، جب بھی کفالت باطل ہو گئی، اس کے ورثہ سے مطالبہ نہیں ہو سکتا۔‘‘(حصہ 12، صفحہ 836)اس جزئیے کے مطابق کیا حکم ہو گا؟

    نوٹ: سائل نے وضاحت کی ہے کہ ضمانت والی رقم ترکے میں سے بآسانی  ادا کی جا سکتی ہے۔ نیز ابو نے اپنا کوئی وصی مقرر نہیں کیا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ کا جواب جاننے سے قبل تمہیداً کفالت کے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین کر لیجئے کہ کسی شخص کے ذمے لازم ہونے والے مطالبے کو اپنے ذمے بھی لازم کر لینا، کفالت/ ضمانت کہلاتا ہے، اب وہ مطالبہ چاہے نفس کا ہو یا دَین کا یا پھر معینہ چیز کا ہو۔ دوسرے کا مطالبہ اپنے ذمے لینے والے شخص کو ’’کفیل/ ضامن‘‘ کہاجاتا ہے۔ کفالت نفس کی بھی ہوتی ہے، یعنی یہ ضمانت دینا کہ فلاں کو (پنچایت وغیرہ میں) حاضر کروں گا،  اسے کفالت بالنفس کہتے ہیں اور مال کی ادائیگی کی بھی ہوسکتی ہے، مثلاً :فلاں پر لازم ہونے والے مال کی ادائیگی کا میں بھی ضامن ہوں۔ پھر کفالتِ نفس میں اگر کفیل (ضامن) کا انتقال ہو جائے، تو کفالت باطل ہو جاتی ہے، کیونکہ اب نہ تو کفیل اسے حاضر کرنے پر قادر رہا اور نہ اس کا ترکہ بندے کو حاضر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یونہی ورثاء پر بھی اسے حاضر کرنا لازم قرار نہیں دیاجائے گا، بر خلاف کفالتِ مال کے کہ اس میں کفیل کا انتقال ہو جائے،تو یہ کفالت باطل نہیں ہو گی، بلکہ  (ترکہ موجود ہونے کی صورت میں) مرحوم کے ترکے میں سے دَین ( قرض ) وغیرہ کی ادائیگی کی جائے گی، پھر اگر کفیل نے اصیل (جس کی کفالت کی تھی اس) کی اجازت سے کفالت کی ہو، توکفیل کے ورثاء اس سے دَین ( قرض ) کا مطالبہ کر سکتے ہیں، بشرطیکہ دَین ( قرض ) کی ادائیگی کا مقررہ وقت آ چکا ہو، ورنہ اگر وقت باقی ہو، تو اس کے بعد مطالبہ کر سکتے ہیں، اس سے پہلے نہیں۔

    اس تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ جب آپ کے والد صاحب نے زندگی میں اپنے دوست کا قرض ادا کرنے کی ضمانت دی تھی اور اب ان کا انتقال ہو گیاہے، لیکن ترکہ موجود ہے، تو قرض خواہ کا والدِ مرحوم کی ضمانت کو بنیاد بنا کر آپ سے قرض کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے اور آپ پر بھی مرحوم والد کے ترکے سے ضمانت والے قرض کی ادائیگی لازم ہو گی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ آپ کے والد نے چونکہ اپنے دوست کے کہنے پر ہی ان کی ضمانت دی تھی اور اس کی ادائیگی کا  مقررہ وقت بھی گزر چکا ہے، تو اب  آپ قرضدار (یعنی والد کے دوست) سے اس مال کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور جب وہ مل جائے، تو ورثاء میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم کر لیں۔

    کفالت کی تعریف در مختار میں یوں ہے:’’ھی ضم ذمۃ الکفیل الی ذمۃ  الاصیل فی المطالبۃ مطلقاً بنفس او بدین او عین کالمغصوب ونحوہ‘‘ ترجمہ: کفیل کے ذمہ کو اصیل کے ذمہ کے ساتھ مطالبے میں ملا دینا، خواہ وہ مطالبہ نفس کا ہو یا دَین یا عین مثلاً مغصوبہ چیز یا اس  کی مثل کا۔            

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الکفالۃ، جلد 7، صفحہ 589، مطبوعہ  پشاور)

    کفالت کی بنیادی طور پہ دو قسمیں ہیں، چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’الکفالۃ ضربان: کفالۃ بالنفس وکفالۃ بالمال، فالکفالۃ بالنفس جائزۃ والمضمون بھا احضار المکفول بہ،۔۔۔ واما الکفالۃ بالمال فجائزۃ معلوماً کان المکفول بہ او مجھولا والمکفول لہ بالخیار ان شاء طالب الذی علیہ الاصل و ان شاء طالب کفیلہ‘‘ ترجمہ: کفالت کی دو قسمیں ہیں: کفالت بالنفس اور کفالت بالمال، کفالت بالنفس درست ہے اور اس میں مکفول بہ کو حاضر کرنے پر ضمانت دی جاتی ہے،۔۔ اور کفالت بالمال بھی جائز ہے، خواہ مال کی مقدار معلوم ہو یا مجہول اور مکفول لہ کو اختیار ہے ، چاہے اس سے مطالبہ کرے ، جس پر اصل مطالبہ ہے اور اگر چاہے تو اس کے کفیل سے مطالبہ کرے ۔

(ھدایہ، کتاب الکفالۃ، جلد 3، صفحہ 118 تا 123، مطبوعہ  لاھور)

    کفیل کے انتقال کی صورت میں کفالت کا حکم بیان کرتے ہوئے صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:’’ واذا مات المکفول بہ بری الکفیل بالنفس من الکفالۃ،۔۔ وکذا اذا مات الکفیل لانہ لم یبق قادراً علی التسلیم المکفول بنفسہ ومالہ لا یصلح لایفاء ھذا الواجب بخلاف الکفیل بالمال ‘‘ ترجمہ: مکفول بہ  کا انتقال ہو جائے، تو کفیل بالنفس کفالت سے بری ہو جاتا ہے، ۔۔ یونہی جب کفیل کا انتقال ہوجائے، (تب بھی یہی حکم ہے)، کیونکہ اب کفیل خود مکفول بہ کو حوالے کرنے پر قادر نہ رہا، یونہی اس کا مال بھی اس معاہدے کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بخلاف کفیل بالمال کے۔

     (بخلاف الکفیل بالمال)کے تحت فتح القدیر میں ہے:’’اذا مات فانہ یطالب باداء ما کفل بہ لان مالہ یصلح للوفاء بذلک فیطالب بہ الوصی، فان لم یکن، فالوارث لقیامہ مقام المیت وترجع ورثۃ الکفیل علی الاصیل اعنی المکفول عنہ ان کانت الکفالۃ بامرہ کما فی الحیاۃ ولو کان الدین مؤجلاً ومات الکفیل قبل الاجل، یؤخذ من ترکتہ حالاً ولا ترجع ورثتہ علی المکفول عنہ الا بعد حلول الاجل، لان الاجل باق فی حق المکفول عنہ‘‘ ترجمہ: جب کفیل بالمال فوت ہو جائے، تو ضمانت کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، کیونکہ مرحوم کا مال اس معاہدے کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پس مرحوم کے وصی سے مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وصی نہ ہو، تو ورثاء ہی میت کے قائم مقام ہوں گے، پھر کفیل کے ورثاء اصیل یعنی جس کی ضمانت دی تھی، اس سے رجوع کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کفالت اصیل کی اجازت سے ہوئی ہو، جیسا کہ کفیل کی زندگی میں حکم تھا، نیز اگر دَین کی مدت مقرر ہے اور مدت سے قبل ہی کفیل کا انتقال ہو گیا، تو فی الحال اس کے ترکے سے دَین ادا کر دیا جائے گا اور اس کے ورثاء اصیل سے مدت گزرنے کے بعد ہی مطالبہ کریں گے، کیونکہ اصل شخص کے حق میں ابھی مطالبے کی مدت باقی ہے۔

( فتح القدیر، کتاب الکفالۃ، جلد 6، صفحہ 289 تا 290، مطبوعہ کوئٹہ)

    بدائع الصنائع میں ہے:’’ولو کان الدَین علی الاصیل مؤجلاً الی سنۃ، فکفل بہ مؤجلاً الی سنۃ او مطلقاً ثم ۔۔۔ مات الکفیل دون الاصیل، یحل الدین فی مال الکفیل وھو علی الاصیل الی اجلہ‘‘ ترجمہ:  اگر اصیل پر دَین ہو جس کی مدت ایک سال طے کی گئی، پس دوسرے شخص نے ایک سال تک یا مطلقاً  ہی دَین کی ادائیگی کی کفالت لے لی، پھر ۔۔ کفیل کا انتقال ہو گیا، لیکن اصیل زندہ ہے، تو کفیل کے مال سے دین ادا کر دیا جائے گا اور اصیل پر اس کی ادائیگی مقررہ مدت گزرنے پر لازم ہو گی۔

( بدائع الصنائع، کتاب الکفالۃ، جلد 4، صفحہ 601، مطبوعہ کوئٹہ)

    اسی میں ہے:’’ولو مات الکفیل عاجزاً مفلساً لم یبطل عنہ الدین، فکان الحق علی الکفیل الزم منہ علی الاصیل‘‘ ترجمہ:  اگر کفیل عجز و مفلسی کی حالت میں فوت ہوا، تو دین کا مطالبہ باطل نہیں ہوگا، البتہ کفیل پر لازم ہونے والا حق اس کی طرف سے اصیل پر لازم کر دیں گے۔

 ( بدائع الصنائع، کتاب الکفالۃ، جلد 4، صفحہ 610، مطبوعہ کوئٹہ)

     (2) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ کفالت بالمال کفیل کے انتقال سے باطل نہیں ہوتی، بر خلاف کفالت بالنفس کے کہ وہ باطل ہو جاتی ہے اور سوال میں بہار شریعت کے جس جزئیے کا ذکر کیا گیا، وہ اس تفصیل کے منافی نہیں ہے، بلکہ اسی جزئیے کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ اس میں بیان کردہ حکم کفالت بالنفس کے متعلق ہی ہے۔

    چنانچہ صاحبِ بہار شریعت فرماتے ہیں: ’’کفالت بالنفس میں اگر مکفول بہ مر گیا، کفالت باطل ہو گئی۔ یونہی اگر کفیل مر گیا، جب بھی کفالت باطل ہو گئی، اس کے ورثہ سے مطالبہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

 (بھار شریعت، حصہ 12، صفحہ 843، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم