کرائے پر دی ہوئی دوکانیں،مکان گفٹ کرنے کا شرعی طریقہ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1974

تاریخ اجراء:04جمادی الاخریٰ 1442ھ/18جنوری2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ کسی شخص کی بہت ساری جائیداد ہوتی ہے ،جس میں دوکانیں ، مکان بھی ہوتے ہیں ، جو کرائے پر دیے ہوتے ہیں ۔ وہ شخص اپنی زندگی میں ہی بچوں میں تقسیم کرتے ہوئے مکان اور  دوکانیں بچوں کے نام کر دیتا ہے،جس کا کرایہ وغیرہ والد کی زندگی میں ہی بچے لینا شروع ہوجاتے ہیں ، لیکن والد نے دوکانیں مکان جن لوگوں کو کرائے پر دیے ہوتے ہیں،ان لوگوں سے خالی کروا کر بچوں کو نہیں دیتا ،صرف دوکانوں کی رجسٹری بچوں کے نام کروا کر مکمل اختیارات بچوں کو دے دیتا ہے ، یہاں تک کہ اگر وہ بچے ان کرائے داروں کو نکالنا چاہیں ، تو نکال بھی سکتے ہیں ، ان کی جگہ کسی اور کو کرائے پر دے سکتے ہیں ، لیکن بچے سوچتے ہیں کہ کسی اور کو بھی تو کرائے پر دینا ہی ہے ، ان کے پاس ہی رہنے دیتے ہیں ، تو اس طرح بچے بھی ان کو نہیں نکالتے اور جو کرایہ پہلے والد صاحب وصول کرتے تھے ، اب والد کی موجودگی میں بچے وصول کرتے رہتے ہیں ، اپنی اپنی دوکان مکان کے معاملات دیکھتے رہتے ہیں ۔ آپ سے یہ شرعی رہنمائی درکار ہے کہ والد نے کرائے پر دی ہوئی دوکانیں ، مکان کرائے داروں سے خالی کروا کر بچوں کو قبضہ نہ دیا ہو ، تو کیا اس طرح وہ دوکانیں ، مکان بچوں کے ہوجائیں گے یا کرائے داروں سے خالی کروا کر بچوں کو دینا ضروری ہے ؟ اگر کرائے داروں سے خالی کروا کر قبضہ نہ دیا ہو اور والد کا انتقال ہوجائے ، تو اب بعد میں وہ کرائے پر دی ہوئی دوکانیں ، مکان وراثت کے طور پر تقسیم ہوں گے یا جن بچوں کو زندگی میں والد نے دے دیے تھے ، ان کے ہوگئے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق والد کی کرائے پر دی ہوئی دوکانیں مکان کرائے داروں سے خالی کروا کر بچوں کو قبضہ دیے بغیر ، صرف بچوں کے نام رجسٹری کروانے اور اختیارات دینے سے ان کے نہیں ہوں گے ، بلکہ والد کی ملکیت ہی رہیں گے ۔ والد کے فوت ہونے کے بعد اس کی وراثت میں شمار ہوں گے اور وراثت کے قوانین کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم ہوں گے ۔

    مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ دوسرے کو اپنی چیز کا بغیر عوض مالک بنانا  ہبہ ( یعنی گفٹ ) کہلاتا ہے اور ہبہ درست اور مکمل ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز اگر کسی اور کے قبضے میں ہو ، تو ہبہ کرنے والا شخص اس سے خالی کروا کر موہوب لہ ( یعنی جس کو وہ چیز گفٹ کی ہے ، اس ) کے قبضے میں دیدے اور کرائے پر دیے ہوئے مکان دوکان کی صرف رجسٹری نام کروا دینا شرعی قبضہ نہیں ہے ، بلکہ کرائے داروں سے خالی کروا کر سپرد کر نا ضروری ہے ، لہٰذا اگر چیز جس کے قبضے میں تھی ، اُس سے خالی کروا کر موہوب لہ کے قبضے میں نہیں دی اور اسی حالت میں ہی ہبہ کرنے والے شخص کا انتقال ہوجائے ، تو ایسی صورت میں قبضہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہبہ بھی مکمل اور درست نہیں ہوتا ، بلکہ باطل ہوجاتا ہے اور اس چیز کے مالک ( یعنی بچوں کے والد ) کی ملکیت میں ہی رہتی ہے اور پھر وراثت کے قوانین کے مطابق اُس کے ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے ، لہٰذا سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق اگر والد کرائے پر دی ہوئی دوکانیں مکان کرائے داروں سے خالی کروا کر بچوں کو ان پر قبضہ نہیں دے گا ، تو وہ دوکانیں ، مکان بچوں کی ملک نہیں ہوں گے اور اگر اسی حالت میں والد کا انتقال ہوجائے ، تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوگا ، بلکہ باطل ہوجائے گا ، جس وجہ سے وہ دوکانیں اورمکان والد کی وراثت میں شمار ہوں گے اور وراثت کے قوانین کے مطابق ہی تقسیم ہوں گے ۔

    ہبہ درست ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہونے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :’’ إن أبا بكر الصديق كان نحلها جاد عشرين وسقا من ماله بالغابة. فلما حضرته الوفاة، قال: واللہ يا بنية ما من الناس أحد أحب إلي غنى بعدي منك. ولا أعز علي فقرا بعدي منك. وإني كنت نحلتك جاد عشرين وسقا. فلو كنت جددتيه واحتزتيه كان لك . وإنما هو اليوم مال وارث. وإنما هما أخواك وأختاك، فاقتسموه على كتاب اللہ ‘‘ ترجمہ : سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے غابہ کے مقام پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کھجوروں کے چند درخت ہبہ ( گفٹ ) کیے تھے ، جن سے بیس وسق کھجوریں آتی تھیں ۔ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ظاہری دنیا سے جانے کا وقت آیا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میری بیٹی ! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے بعد کوئی اور تم سے زیادہ غنی ہو اور میرے بعد تمہارے علاوہ کسی کی تنگدستی مجھ پر گراں نہیں ہے ۔ میں نے تمہیں کچھ درخت ہبہ ( گفٹ ) کیے تھے ۔ اگر ( اُس وقت ) تم نے ان پر قبضہ کر لیا ہوتا ، تو وہ تمہارے ہو جاتے اور ( چونکہ اُس وقت تم نے قبضہ نہیں کیا ، اس لیے اب وہ تمہاری ملک نہیں ہیں ، بلکہ ) آج وہ وراثت کا مال ہے ، تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ، لہٰذا تم لوگ اسے قرآنِ پاک ( میں بیان کردہ وراثت کے قوانین ) کے مطابق تقسیم کرنا ۔

 ( موطا امام مالک ، کتاب الاقضیۃ ، باب مالایجوز من النحل ، صفحہ 645، مطبوعہ کراچی )

    ہبہ کی تعریف سے متعلق علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں فرماتے ہیں : ’’ تمليك العين مجانا أی بلا عوض ‘‘ ترجمہ : بغیر عوض دوسرے کو کسی چیز کے عین کا مالک بنانا ( ہبہ کہلاتا ہے ) ۔

( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 567 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    ہبہ کے لیے مکمل قبضہ ضروری ہے ۔ چنانچہ در مختار میں ہی ہے : ’’ و تتم الھبۃ بالقبض الکامل ‘‘  ترجمہ : ہبہ قبضۂِ کاملہ کے ساتھ پورا ہوتا ہے ۔

    اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں : ’’ يشترط القبض قبل الموت ‘‘ ترجمہ : ( ہبہ کرنے والے کی ) موت سے پہلے قبضہ کرنا شرط ہے ۔

 (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 573 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    ہبہ کی شرائط سے متعلق در مختار میں ہے :’’ و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول ‘‘ ترجمہ : ہبہ کی جانے والی چیز میں ہبہ درست ہونے کی یہ شرائط ہیں کہ وہ چیز قبضہ میں ہو ، مشاع ( مشترک ) نہ ہو ، جدا ہو اور ( کسی اور کے قبضہ کے ساتھ ) مشغول نہ ہو ۔

 (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 569 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    رد المحتار میں ہے : ’’ لو وهب طفله دارا يسكن فيها قوم بغير أجر جاز ويصير قابضا لابنه، لا لو كان بأجر ‘‘ ترجمہ : ( باپ نے ) اپنے بچے کو گھر ہبہ کیا اور اس گھر میں کچھ لوگ بغیر اجرت کے رہتے تھے ، تو ہبہ درست  ہے اور بیٹے کا قبضہ ہوجائے گا ، بخلاف اس صورت کے کہ اگر ( اس گھر میں رہنے والے لوگ ) کرایہ دے کر رہتے ہوں ( تو ایسی صورت میں قبضہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہبہ مکمل نہیں ہوگا )۔

    ہبہ کی گئی چیز کرائے پر دی ہو ، تو یہ قبضہ اور ہبہ کے لیے مانع ہے ۔ چنانچہ علامہ رافعی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار کی مذکورہ بالا عبارت کے حاشیہ میں منتقیٰ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ’’ ان ید الساکن باجر ثابتۃ علی الموھوب بصفۃ اللزوم فیمتنع القبض فیمتنع تمام الھبۃ ‘‘ ترجمہ : کرائے دار کا ہبہ کی ہوئی چیز پر قبضہ صفتِ لازمہ کے ساتھ ہے ( یعنی مستقل اور جدا قبضہ ہے ) ، تو موہوب لہ ( جس کو چیز ہبہ کی گئی ہے ، اس کے ) قبضہ کرنے سے یہ مانع ہے ، لہٰذا یہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے مانع ہوگا ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 575 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے کرائے داروں کی موجودگی میں مکان دوکان ہبہ کرنے سے متعلق سوال ہوا : ’’ اگر مکان مسکونہ میں متوفیہ تادم حیات خود رہی بعد تحریر ہبہ نامہ کے اور باقی مکان دکانوں میں اسی متوفیہ کے کرایہ دار تھے اور کوئی امر جدید جو موجب قبضہ ہوتا تاحیات متوفیہ عمل میں نہیں آیا ،تو موجب بطلان ہبہ ہوا یا نہیں؟ ‘‘ اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا : ’’ ہاں اس صورت میں قبضہ نہ ہوااور قبل قبضہ موت موجب بطلان ہبہ ( یعنی ہبہ باطل کرنے کا سبب ) ہے۔ ‘‘

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 19 ، صفحہ 338 تا  342 ، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

    صرف رجسٹری کروانے سے قبضہ مکمل نہیں ہوتا ، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ ’’ ہندہ نے اپنی بیٹی کو مکان ہبہ کیا ، اس کی رجسٹری بھی بچی کے نام کروا دی ، تو یہ مکان بچی کا ہوگیا یا نہیں ؟ ‘‘ جواباً آپ -1){ document.body.classList.add('mac-os'); }