Zani Aur Zania Ki Aulad Ka Nikah

زانی اور زانیہ کی اولاد کا باہم نکاح

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2555

تاریخ اجراء: 03رمضان المبارک1445 ھ/14مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مرد وعورت  جو آپس میں زنا کرتے ہیں ، لیکن  شادی شدہ ہیں، ان کی اپنی اپنی اولادیں ہیں  اپنے اپنےگھروں میں ، تو   اگر وہ اپنی اولادوں کا ایک دوسرے سے نکاح کرنا چاہیں، تو کیا  یہ نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زنا کرنا، ناجائزوحرام، جہنم کا مستحق بنانے والا،بے حیائی پر مشتمل کام ہے۔ اس کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ اس برے فعل سے بچنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں ان دونوں پر شرعاً لازم ہے کہ توبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اس گناہ سے سچےدل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آئندہ اس گناہ سے باز رہیں، البتہ وہ مرد و عورت جنہوں نے باہم زنا کیا، توان کی  وہ اولادجوکسی اورسے ہے (جیسے مردکی اپنی بیوی سے اورعورت کی اپنے شوہرسے)ان کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے،  جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔

      بحر الرائق میں ہے”أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع: حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها “ترجمہ: یہاں حرمتِ مصاہرت سے چار حرمات مراد ہیں، زانی کے نسبی و رضاعی اصول وفروع، زانیہ پر حرام ہیں اور زانیہ کے نسبی و رضاعی اصول و فروع، زانی پر حرام ہیں جیسا کہ حلال وطی کی وجہ سے ہوتا ہے،البتہ  زانی کے اصول وفروع کےلئے زانیہ کے اصول وفروع حلال ہیں ۔(بحر الرائق، کتاب النکاح،ج 3،ص 108،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

   واقعات المفتین میں امام خواہرزادہ کی تجنیس کے حوالے سے ہے:” لا یحرم علی ولد الواطی و لا علی ابیہ ولد الموطوۃ ولاامھاتھا “ترجمہ:موطوءۃ (جس کے ساتھ وطی کی گئی)کی اولاد یا مائیں، وطی کرنے والےکی اولادیا باپ پر حرام نہ ہوں گی۔(واقعات المفتین،ص 32، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم