مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3342
تاریخ اجراء:04جمادی الاخریٰ1446ھ/07دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ولیمہ میں کتنے کلو گوشت کا ہونا ضروری ہے؟کیا سوا کلو گوشت کا بھی ولیمہ ہو جائے گا؟کہتے ہیں کہ سوا کلو سے کم گوشت کا ولیمہ نہیں ہوتا،نیز(2)کیا ولیمہ دوسرے کے گھر پر بھی کر سکتے ہیں یا جس کی شادی ہوئی ہے،ولیمہ بھی اُس کے ہی گھر پر ہوگا؟رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ”سوا کلو سے کم گوشت کا ولیمہ نہیں ہوتا“وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ ولیمہ میں نہ گوشت ضروری ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مخصوص مقدار کا کوئی شرعی حکم ہے بلکہ ولیمہ کی دعوت کا شوہر کی حیثیت کے مطابق ہونا مستحب ہے۔
(2)اسی طرح ولیمہ کرنے کی جگہ کے بارے میں بھی کوئی شرعی پابندی نہیں ہے، شریعت کی حدود میں کہیں بھی مناسب جگہ پر کیا جا سکتا ہے،جس کی شادی ہے اس کے گھر میں بھی کیا جا سکتا ہے،اسی طرح ریسٹورنٹ، شادی ہال یا کسی عزیز کے گھر بھی کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ:ولیمہ کی سنت اس وقت ادا ہوتی ہے کہ جب شبِ زفاف سے اگلے دن یا اس کے بعد والے دن تک دعوت کی جائے اور شبِ زفاف کے دو دن گزرنے کے بعد کی گئی دعوت سے سنت ادا نہیں ہوگی، محض دعوت کہلائے گی، سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔
صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”قال النبی صلى اللہ عليه وسلم:اولم ولو بشاۃ“ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ولیمہ کرو،اگرچہ بکری ہی سے ہو۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث 3937، ج5، ص69،دار طوق النجاۃ)
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ اس حدیثِ مبارک کے تحت فرماتے ہیں:”قال عیاض:و اجمعوا علیٰ ان لا حد لاکثرھا، واما اقلھا فکذلک، و مھما تیسر اجزأ،و المستحب انھا علیٰ قدر حال الزوج“ترجمہ: قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ولیمہ کی دعوت کے لیے زیادتی کی کوئی حد نہیں، اسی طرح کمی کی بھی کوئی حد نہیں،بلکہ جو چیز میسر ہوجائے وہ کفایت کرے گی،البتہ شوہر کی حیثیت کے مطابق ولیمہ کی دعوت کا ہونا مستحب ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری،ج09، ص235،دار المعرفۃ،بیروت)
مرأۃ المناجیح میں ہے:”اس حدیث سے معلوم ہوا کہ۔۔۔ولیمہ کرنا سنت ہے۔۔۔ولیمہ بقدرِ طاقت زوج ہو اس کے لیے مقدار مقرر نہیں۔ملتقطاً“(مرأۃ المناجیح، جلد05، صفحہ72، نعیمی کتب خانہ،گجرات)
فتاوی امجدیہ میں ہے:”(ولیمہ کی)دعوت سنت کے لیے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں،اگر دو چار اشخاص کو کچھ معمولی چیز،اگرچہ پیٹ بھر نہ ہو،اگرچہ دال روٹی چٹنی روٹی ہو، یا اس سے بھی کم کھلاویں سنت ادا ہوجائے گی اور کچھ بھی استطاعت نہ ہو، تو کچھ الزام نہیں۔ملخصاً“(فتاوی امجدیہ،ج4،ص224،225،مکتبہ رضویہ،کراچی)
مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ولیمہ وہ دعوت ہے جو شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست و احباب،عزیز و اقارب اور محلے کے لوگوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کی جائے۔“(وقار الفتاویٰ، جلد03، صفحہ137، مطبوعہ بزم وقار الدین)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟